کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 276
مشہور فاتحین کی فقید المثال فتح مندیوں اور فاتح اقوام کی کارفرمائیوں پر نطر ڈالتے ہیں تو یہ حقائق واشگاف ہوتے ہیں کہ فاتح میں شان رحمت کے مفقود ہونے اور کامران اقوام کی سفاکیوں کے باعث بہت جلد عظمت فتح کا پرچم پارہ پارہ ہوجاتا ہے اولاد آدم کے اولین عہد عظمت میں‘ اقوام مشرق کی داستان عروج وزوال کے مطالعہ سے واضح ہے کہ دارائے ایران کی عظیم کشور کشائیاں ہوں‘ سکندر اعظم کی ذی شان کامرانیاں ہوں یا فاتحین چین کی وسیع فتوحات ہوں۔ فارس روم کا جبرو تشدد ہو یا اہل چین اور آریائی قوموں کی استبداد یت ہو۔ اس نے فاتحین کے ایوانات عظمت و جلالت کو مسمار کردیا ہے‘‘۔ ’’لیگ آف نیشنز کے بعد عالمی جنگ کی غارت گری‘ انسانی حقوق کے چارٹر اور اس کے بعد ہمارے اس دور میں اقوام متحدہ کی موجودگی میں کوریا کی خونریزی ‘ اسکندریہ پر بمباری ‘ فلسطین میں اسرائیلی بہیمت ‘ افریقہ میں الجزائر اور کانگو کی لرزہ خیز خون آشامیاں‘ کشمیرمیں بھارت کا جبرو استبداد اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں کہ موجودہ دور کی طاقتور حکمران قومیں تعلیمات محمدیہ سے غافل ہیں اور اس غفلت کے باعث دنیا جہنم زار ہوتی جارہی ہے مساعی امن کے باوصف امن ناپید ہوگیا ہے‘‘۔ ’’بلا شک اگر دنیا کے حکمران فاتح مکہ کے مقدس درس عالی پر عمل پیرا ہوتے تو اولاد آدم کے لیے یہ دنیائے ارضی بہشت بریں ہوجاتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ میں فاتحین عالم کو فقید المثال درس دے کر نوع انسان پر احسان عظیم فرمایا ہے۔ اور آج بھی صرف یہی طریق محمدی امن عالم کا ضامن ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قدیم ترین دشمنوں ‘قتل کی سازش کرنے والوں اور مدینہ طیبہ پر چڑھ کر آنے والوں کو معاف کرکے اہل مکہ کے دلوں کو مسخر کرلیا اور مفتوح قوم میں ذرا بھی جذبہ انتقام پیدا نہ ہوسکا۔ یہی اسوۂ حسنہ آج بھی دنیا کی طاقت ور قوموں اور بااختیار حکمرانوں کے لیے معیار عمل ہے۔ (ایضاً ص۱۱۸،۱۱۷،۱۱۶) (۱۴) آخر میں ہم جارج برنارڈ شاہ کے اس تبصرہ پر اقتباسات کو ختم کرتے ہیں: ’’آنے والے سو سال میں ہماری دنیا کا مذہب اسلام ہوگا۔ مگر یہ موجودہ زمانے کا اسلام نہ ہوگا۔ بلکہ وہ اسلام ہوگا جو عہد محمد رسول اللہ کے زمانے میں دلوں‘ دماغوں اور روحوں میں جاگزین تھا‘‘۔ (ایضا ص۱۵۰)