کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 275
عظیم مفکر بلند پایہ خطیب اور بے نظیر مقنن تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہروں اور قلعوں کے ساتھ ساتھ کروڑوں دلوں کو بھی فتح کیا اور تقریباً بیس ممالک میں اسلامی بادشاہت قائم کی۔ لا ؤ ان تمام معیاروں اور پیمانوں کو‘ جن سے انسانی عظمت کو ناپا جاسکتاہے۔ اور پھر اس سوال کا جواب دو کہ کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی بڑا انسان ہوسکتا ہے۔ (۱۲) ایک ہندو مصنف ’’جناب بی ایس رندھاوا (ہوشیار پور) پیغمبر اسلام پر اعتراض کرنے والوں سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ’’ بانیان مذاہب میں سے سب سے زیادہ ناانصافی اور ظلم اگر کسی پر کیا گیا ہے تو بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر کیا گیا ہے اور متعصب مورخین نے کوشش کی کہ پیغمبر اسلام کو ایک خونخوار اور بے رحم انسان کی شکل میں پیش کیا جائے اور خواہ مخواہ دوسروں کو ان سے نفرت دلائی جائے۔ معلوم ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تنقید کرنے والوں نے اسلامی تاریخ اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا صحیح طور پر مطالعہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں کہ بلکہ سنی سنائی اور بے بنیاد باتوں ہی کو سرمایہ بنا کر اعتراضات کی بوچھاڑ شروع کردی۔ اگر ایسے لوگ اسلامی روایات کو سمجھ لیتے اور سچائی کے اظہار کے لیے اپنے اندر کوئی جرأت و ہمت پاتے تو یقینا اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوتے‘‘۔ (ایضًا ص ۳۷) (۱۳) رانا بھگوان داس ‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہترین سیاست کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں جن میں انہوں نے عظیم فاتحین کا تقابل بھی پیش کیا ہے۔ ’’بنی نوع انسان کے مسائل صلح وجنگ اور معاہدات امن کے علاوہ انسانی معاشرہ کی خوشحالی کا دارو مدار فاتح کے تدبر پر ہے۔ تاریخ عالم کے صفحات شاہد ہیں کہ فاتحین کی خون آشامی اور وحشت بربریت ‘بالادستی وبرتری ‘ نیز عسکری قوت کے اندوہناک مظاہروں سے مفتوحہ علاقوں پر تسلط تو حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن تسخیر قلوب مفتوحین کے اقدام معجز نما کے بغیر اصولوں کی کامرانی اور مقاصد کی جاودانی ممکن نہیں ہے۔ بلا شک فاتح کی شان امتیازی‘ سطوت سیاسی اور شوکت اقتدار کے جابرانہ دبدبہ‘ سفاکانہ طریقے‘ لوٹ کھسوٹ اور خونریز فسادات سے حکمرانی کی جھوٹی عظمت کو برقرار تو رکھا جا سکتا ہے لیکن ظلم و استبداد سے پیدا شدہ جذبہ اشتعال اور نفرت وانتقام کی آتشیں چنگاریوں کو شعلہ بداماں ہونے سے نہیں روکا جا سکتا اور فاتحانہ سفاکی اور درندگی وبہیمت کی وجہ سے انتہائی قلیل عرصہ میں فاتحانہ جلال کے فلک بوس قصر زمین پر آرہے ہیں۔ جب ہم