کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 274
جاسکتا ہے؟ (ایضا ص۱۷۷)
(۹) ایک مستشرق ڈاکٹر برمنگھم ‘ کے نزدیک اشاعت اسلام کے اسباب درج ذیل ہیں:
’’مجھ کو کسی وقت بھی خیال نہ ہوا کہ اسلام کی ترقی تلوار کی مرہون منت ہے ۔ نہیں بلکہ اسلام کی کامیابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادہ وبے لوث زندگی‘ ایفائے عہد ‘ اصحاب وپیرو ؤ ں کی غیر معمولی حمایت‘ توکل خدا اور ذاتی جرأت واستقلال سے وابستہ ہے‘‘۔ (ایضاً ص۶۲)
(۱۰) ایک اور مستشرق پروفیسر باسورتھ اسمتھ اپنی کتاب ’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم اینڈ محمڈن ازم‘‘ میں فساد فی الارض کے خاتمہ کے لیے اسلام اور بانی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے خیالات کو یوں قلمبند کرتے ہیں:
’’وہ جس طرح ایک مذہب کے پیشوا تھے‘ اسی طرح ایک حکومت کے سب سے بڑے مدبر تھے۔ وہ قیصراور پوپ کا مجموعہ تھے۔ ان کے پاس باڈی گارڈنہ تھے۔ کوئی محل نہ تھا۔ تاہم ان کے ہاتھ میں ساری قوت تھی……… بلا شک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اگر پوچھا جائے کہ افریقہ بلکہ کل دنیا کو مسیحی مذہب نے زیادہ فائدہ پہنچایا یا اسلام نے ؟ تو جواب میں اسلام ہی کہنا پڑے گا۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش ہجرت سے پہلے (خدانخواستہ) شہید کر ڈالتے۔ تو مشرق مغرب دونوں ناکارہ رہ جاتے ۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ آتے تو دنیا کا ظلم بڑھتے بڑھتے اس کو تباہ کردیتا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو یورپ کے تاریک زمانے دو چند بلکہ سہ چند تاریک تر ہوجاتے۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو انسان ریگستانوں میں پڑے بھٹکتے پھرتے ۔ جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ صفات اور تمام کارناموں پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا تھے اور کیا ہوگئے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے تابعدار غلاموں نے ‘ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کی روح پھونک دی تھی‘ کیا کیا کارنامے دکھائے تو مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے برتر اور اپنی نظیر آپ ہی دکھائی دیتے ہیں۔
(۱۱) اسلامی نقطہ نظر سے جنگ اور فتح کے نصب العین پر ایک انگریز مضمون نگار کیمرٹین کا اقتباس ملا حظہ فرمائیے ۔ یہ مضمون روزنامہ جنگ ۲۴ ستمبر ۱۹۶۸ ء میں شائع ہوا۔
’’پیروان اسلام نے صرف ایک صدی میں ایران ‘عراق ‘ شام‘ فلسطین ‘ مصر ‘مراکش‘ سپین اور سندھ فتح کرلیا تھا۔ اگر نصب العین کی بلندی اور مقصد کی درخشندگی ‘ کمال قیادت کا معیار بن سکتی ہے تو پھر محمد اکے مقابلہ میں کسی اور رہنما کو قطعاً پیش نہیں کیا جاسکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک