کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 272
تھی۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصیبت کے زمانے کی زندگی میں تھی۔ دنیوی زندگی کے لوازمات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دل میں کبھی خیال بھی نہیں گزرا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی بھی جگہ آمد کے وقت اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال میں کوئی غیر معمولی شان پیدا کی جاتی تھی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار ہوتی تھی۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی عالمگیر حکومت کے خواہاں تھے تو وہ تھی زمین پر خدا کی حکومت اور اخلاص کی حکومت۔ (۴) ایک ہندو مسٹر آر۔ سی۔ داس نوع انسانی پر بانی اسلام کے احسانات کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ’’شری رام چند رجی مہاراج‘ بھگوان کرشن‘ گورو نانک جی‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام یہ سب روحانی بادشاہ ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ ان میں ایک روحانی شہنشاہ بھی ہے جس کا مقدس نام حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ریفا رمرنے آکر دنیا میں بہت کچھ کیا ہے۔ مگر حضرت محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )نے دنیا پر اس قدر احسانات کیے ہیں ۔ جن کی مثال نہیں مل سکتی۔ اگرچہ ہر مذہب کے لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اچھی رائے دی ہے۔ مگر چند ایک ہند ؤ ں کے نام کا اظہار کرتا ہوں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم صاحب کے مشن کی خوبیوں کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں ۔ جیسے سروجنی نائیڈو‘ لاجپت رائے ‘ مہاتما گاندھی ‘ مسٹر بھولا بھائی ڈیسائی اور پنڈت موتی لال نہرو وغیرہ ۔ (۵) کیا اسلام بذریعہ تلوار تھا ؟ کے موضوع پر رسالہ ’’ست اپدیش‘‘ کے ایڈیٹر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں: ’’عام خیال یہ ہے کہ اسلام شمشیر کے زور سے پھیلا ہے ۔ مگر ہم اس رائے سے موافقت کا اظہار نہیں کرسکتے۔ کیونکہ زبردستی کی وجہ سے جو چیز کسی ظالم کو دی جاتی ہے وہ جلد ہی ظالم سے واپس بھی لے لی جاتی ہے۔ اگر اسلام کی اشاعت جبر کے ساتھ کی گئی ہو تو آج اسلام کا نام ونشان باقی نہ رہتا ۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام دن بدن ترقی کررہا ہے کیوں؟ یہ اس لیے کہ بانی اسلام کے اندرروحانی شکتی تھی ۔ منش ماتر (بنی نوع انسان ) کے لیے پریم تھا۔ آپ کے اندر محبت اور رحم کا ایک جذبہ کام کرتاتھا اور نیک خیالات کی طرف آپ رہنمائی کرتے تھے‘‘۔(ایضاص۱۷۴) (۶) اسی موضوع پر ایک اور ہندو مصنف پروفیسر رام دیوبی اے‘ یوں رقمطراز ہیں: