کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 271
(۱) نامور مستشرق جان ڈیوڈ پورٹ اپنی کتاب ’’قرآن اور محمد سے معذرت ‘‘ کے دیپاچہ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’اس کتاب کے لکھنے کا ناچیز لیکن مخلصانہ مقصد یہ ہے کہ محمد ا کی سوانح حیات کو جھوٹی تہمتوں اور ناروا الزامات سے پاک کیا جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلوق عالم کی فلاح وبہبود کے لیے جو کچھ کیا ہے۔ اسے اچھی طرح آشکار اکیا جائے ۔ بعض مصنفین نے تعصب کے جوش میں توحید پرستی کے محافظ کی نیک نامی کو جو دھبہ لگایا ہے۔ اس قسم کی غلطی کرکے صرف یہی ظاہر نہیں کیا ہے کہ ان میں خود شرافت وانسانیت اور علم وتحقیق کا کوئی جذبہ موجود نہیں ہے بلکہ انہوں نے انصاف پسندی کے خلاف بھی کام کیا ہے‘‘۔
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بین دلیل یہ ہے کہ سب سے پہلے جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز ترین دوست اور اعزہ تھے۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات وخصائل سے بخوبی واقف تھے اور باوجود جستجو کے انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی ایسی برائی یا خامی نظر نہیں آئی جو ایک بناوٹی اور دھوکہ باز شخص میں ہوسکتی ہے ۔ رسول خدا کی زندگی میں اگر کہیں ذرا سا بھی الجھا ؤ ہوتا تو جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر قریب تھے وہ ضرور آگا ہ ہوتے -(سرور کونین ص ۱۶۴-۱۶۵)
(۲) ہندوستان چرچ بمبئی کے پادری فادرولیم اسلام کے قانون صلح وجنگ کے متعلق یوں رقمطراز ہیں:
’’دنیاداری کو سب نے بُرا کہا لیکن پیغمبر اسلام نے اس فرق کو ختم کردیا اور بتایا کہ دنیا داری بھی دینداری ہے۔ بشرطیکہ احکام الٰہی کے مطابق ہو۔ جنگ عام طور پر بری سمجھی جاتی ہے مگر اسلام نے جنگ کے لیے اعلیٰ اصول پیش کیے۔ ’’جنگ میں ہر کام جائز ہے‘‘۔ کے اصولوں کی سخت مخالفت کی۔ چنانچہ اسلام کے نام لیوا رات کے راہب اوردن کے شاہسوار ہو کر مرتے تھے‘‘۔ (ایضاً ص ۱۶۷)
(۳) ایک اور مستشرق ولیم اورنگ ‘ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی فاتحانہ شان کو دوسرے فاتحین سے یوں ممتاز کرتے ہیں:۔
’’فوجی فتوحات نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں کبھی غرور پیدا نہیں کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی طاقت ور ہوچکے تھے۔ اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عادات اور طرز زندگی میں وہی سادگی
[1] بخاری ۔ کتاب الشروط۔باب اذا اشترط فی المزارعة
[2] فتوح البلدان ص ۳۱، ابن ہشام ص۷۸
[3] بخاری ۔ کتاب الشروط
[4] کتاب الخراج ص۴۱فتوح البلدان ص۷۲