کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 269
«نقرکم ما اقرکم الله[1]
جب تک اللہ تعالیٰ تم کو یہاں رکھے گا ہم بھی تم کو رہنے دیں گے۔
گویا یہود کو خیبر میں رہنے دینا مسلمانوں کا اختیاری معاملہ تھا۔ لہٰذا کسی وقت مسلمان بغیر کسی وجہ کے انہیں نکال دیتے تو تب بھی عہد شکنی کا الزام عائد نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم چند ایسے واقعات بھی پیش آئے جن کی بنا پر یہود کا اخراج ضروری ہوگیا تھا۔ مثلاً:۔
(۱) اس واقعہ معاہدہ کے چند دن بعد یہود نے آپ کو زہر دینے کی سازش کی۔ یہ واقعہ پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کا یہ جرم معاف کردیا۔ اور صرف کھانے میں زہر ملانے والی مجرمہ عورت کا قصاص کے طور پر قتل کیا گیا۔ (غزوہ خیبر)
(۲) اس کے بعد دوسری سازش یہ تھی کہ ایک مسلمان حضرت عبداللہ بن سہیل بن زید انصاری رضی اللہ عنہ کو خفیہ طریقہ سے قتل کرکے انہیں نہر میں ڈال دیا اور اس کا خون بہا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال سے ادا کردیا لیکن یہودکو کوئی سزا نہ دی گئی۔
(۳) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ دور فاروقی میں اپنی مملوکہ زمین کو دیکھنے خیبر گئے ۔ تو یہودیوں نے انہیں سوتے میں پکڑ کر کوٹھے سے نیچے پھینک دیا۔ جس سے ان کے ہاتھ ٹوٹ گئے[2]۔
ایسی معاندانہ کاروائیوں کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجلس شوریٰ طلب کی جس میں بالاتفاق یہود کے اخراج کا فیصلہ طے پایا۔اس کے باوجود انہیں خالی ہاتھ نہیں نکالا گیا بلکہ جو کچھ چھوڑ گئے اس کا پورا پورا معاوضہ بیت المال سے دیا گیا۔ یہاں تک کے کچا واباندھنے کی رسیاں بھی حکومت کی طرف سے مہیا کی گئیں[3]۔
اسی طرح نجران کے عیسائیوں سے جومعاہدہ ہوا اس کے درج ذیل الفاظ قابل غور ہیں:
لهم مافی هذه الصحیفة جوار الله وذمة النبی ابداً حتی یاتی امرالله مانصحو اواصلحوا فی ماعلیهم[4]
ان کے لیے جو کچھ عہد نامہ میں ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی پناہ اور محمد نبی اکی دائمی حفاظت ہے جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم آئے اور وہ خیر خواہ رہیں اور جو کچھ ان کے ذمہ واجب ہے اسے ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں۔