کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 263
اور صفوان بن اسید جو کہ ان کا رئیس اعظم تھا اور ابھی تک اسلام نہیں لایا تھا۔ اس سے اسلحہ جنگ مستعار لیا۔ اس نے سوزر ہیں اور اس کے لوازمات پیش کیے[1]۔ (۵) یہود سے جو غزوات ہوئے۔ مثلاً غزوہ بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ سب یہودیوں کی عہد شکنی اور کھلی بغاوت کے نتیجہ میں پیش آئے تھے۔ غور فرما لیجئے کہ ان میں کون سی جنگ کو جارحانہ جنگ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ دارالاسلام اور دارالحرب: دارالاسلام اور دارالحرب کی اصطلاحیں فی الواقع فقہائے اسلام نے وضع کی ہیں۔ لیکن انہیں عالم اسلام اور عالم جنگ کے معنوں میں پیش کرنے میں کئی مغالطے ہیں۔ جو درج ذیل ہیں: (۱) اسلام غیر مسلموں کے سارے علاقے کو ’’عالم جنگ‘‘ قرار نہیں دیتا۔ ہم چوتھے باب میں واضح کر آئے ہیں کہ غیر جانبدار ممالک سے جنگ کی اجازت نہیں۔ یعنی ایک ایسی مسلم حکومت جو امن و امان سے رہتی اور رہنا پسند کرتی ہے۔ اس سے لڑائی کا کوئی جواز نہیں۔ خواہ وہ حکومت اہل کتاب کی ہو یا مشرکین کی۔ ارشاد باری ہے : ﴿ لَا يَنْهٰىكُمُ اللّٰهُ عَنِ الَّذِيْنَ لَمْ يُقَاتِلُوْكُمْ فِي الدِّيْنِ وَلَمْ يُخْرِجُوْكُمْ مِّنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوْهُمْ وَتُقْسِطُوْٓا اِلَيْهِمْ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ Ď۝ ﴾ (۶۰: ۸) (اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے منع نہیں کرتا ۔ جو تم سے دین کے سلسلہ میں نہیں لڑتے۔ اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالتے ہیں بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ) اس آیت میں غیر جانبدار ممالک سے لڑائی سے منع ہی نہیں کیا گیا بلکہ بہتر سلوک کرنے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔ گویا’’دارالحرب‘‘ دوحصوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک غیر جانبدار علاقہ جو فی الحقیقت دارالحرب نہیں ہے۔ دوسرے حربی علاقہ جہاں جنگ کا امکان ہے۔ (۲) حربی علاقہ میں ایسے ممالک بھی ہوسکتے ہیں جن سے صلح وتجارت وغیرہ کے معاہدات