کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 26
پھر یہ سلسلہ قبائل اور ملکوں تک وسیع ہوتا ہے۔ کوئی نسلی تفاخر کی بنا پر جنگ میں کود پڑتا ہے۔ کوئی ہوس ملک گیری کی تسکین کے لئے جنگ کرتا ہے۔ اور کسی کو فاتح اعظم بننے کی خواہش اس میدان میں لے آتی ہے۔ بہرحال یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اور اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
بعنیہٖ یہی صورتحال حق و باطل کی آویزش کی بھی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی شیطان کی ان سے ٹھن گئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا۔ اورآئندہ یہ سلسلہ لگاتار جاری رہا تا آنکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو گئی۔ دوسری طرف شیطان اور اس کی ذریت اسی وقت سے آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد کو حق سے بہکا دینے میں پوری قوت سے سرگرم عمل ہے۔ اور یہ آویزش آج تک جاری ہے۔ اور آئندہ بھی جاری رہے گی۔ لہٰذا جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت بھی تاابدباقی رہے گی اگرچہ انبیاء کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لَا هِجْرَةَ بَعْدَ الْفَتْحِ وَلٰکِنْ جِهَادٌ وَّ نِیَّةٌ وَ اِنِ اسْتُنْفِرْتُمْ فَاَنْفِرُوْا-)) (بخاری۔ کتاب الجهاد والسیر- باب فضل الجهاد والسیر)
رسول اللہ نے فرمایا:
فتح مکہ کے بعد ہجرت(فرض) نہیں رہی۔ البتہ جہاد کرنا اور اس کی نیت رکھنا باقی ہے۔ تو جب تمہیں (جہاد کے لئے) بلایا جائے تو نکل کھڑے ہو۔)
بعض حضرات کا خیال ہے کہ آج قتال فی سبیل اللہ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ انسان کی ذہنی سطح کا فی بلند ہو چکی ہے۔لہٰذا جہاد بالقلم کے ذریعہ ذہنی تبدیلی لانے سے ہی فتنہ و فساد کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔ ہم اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں رکھتے اور نہ ہی سرد ست اس بحث میں الجھنا چاہتے ہیں۔ البتہ قارئین کی توجہ اس بات کی طرف ضرور مبذول کرانا چاہتے ہیں۔ کہ حدیث بالا میں استُنْفِرتم۔ اور فانفروا کے الفاظ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ قتال فی سبیل اللہ بھی جہاد کی دوسری اقسام کی طرح باقی رہے گا اور اسے رہنا بھی چاہئے۔
جہاد فی سبیل اللہ نبی نوع انسان کی سب سے بڑی خدمت ہے:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جہاد فی سبیل اللہ کی ضرورت اور غرض و غایت کو بہت سے مقامات پر واضح طور پر بیان فرمایا۔
مثلا ایک جگہ فرمایا: