کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 25
(۱) کچھ لوگ اپنے کسی خون یا پہلی شکست کا بدلہ لینے کے لئے انتقام کے طور پر لڑتے ہیں۔
اور کچھ لوگ اپنے وطن، قوم یا قبیلہ کی حمایت میں جنگ کرتے ہیں۔
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج کی متمدن دنیا میں بھی انسان کی ذہنی سطح اس مقام سے ذرہ بھر بھی بلند نہیں ہو سکی۔ صرف انداز و اطوار ہی بدلے ہیں۔ مقاصد میں انہی مندرجہ بالا باتوں میں سے کوئی ایک بات نظر آئے گی۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ان سب مقاصد کے علاوہ ایک بالا تر مقصد کا پتہ دیا اور فرمایا۔ کہ جہاد فی سبیل اللہ صرف وہ کہلا سکتا ہے جو محض اعلائے کلمتہ الحق یا اللہ کا بول بالا کرنے کے لیے لڑا جائے۔ بالفاظ دیگر دنیا سے فتنہ و فساد ختم کر کے اسے احکام و فرامین الٰہی کے سامنے جھکا دینے کا نام جہاد فی سبیل اللہ ہے جس میں انسان کی اپنی کسی ذاتی خواہش کا ذرہ بھر بھی دخل نہ ہونا چاہئے۔
جنگ کے متعلق یہ تصور دنیا بھر کے لئے ایک انوکھا تصور تھا۔ حتیٰ کہ آپ اکے تربیت یافتہ صحابہ کرام ثبھی ابتدا میں اس تصور جہاد پر بہت متعجب ہوئے۔ ایک شخص نے حاضر ہو کر پوچھا۔ یا رسول اللہ! جو شخص مالی فائدے یا ناموری کے لئے جنگ کرتا ہے اسے کیا ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا شیئَ لَہٗ۔ یعنی ایسے شخص کو کچھ نہیں ملے گا‘‘۔سائل اس سوال پر بہت متعجب ہوا۔ آ کر دوبارہ یہی سوال کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ یہی جواب دیا۔ اس کا اطمینان اب بھی نہ ہوا۔ سہ بارہ اور چوبارہ پلٹ کر آیا اور یہی سوال کرتا رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تعجب کی وجہ کو بھانپ کر فرمایا:
((اِنَّ اللّٰهَ لَا یَقْبَلُ مِنَ الْعَمَلِ اِلَّا مَاکَانَ لَه خَالِصاً وَابْتَغِیْ بِه وَجْههَ)) (نسائی۔ کتاب الجهاد- باب من غزا یلتمس الاجر)
(اللہ کوئی عمل اس وقت قبول نہیں کرتا جب تک وہ خاص اس کی خوشنودی اور رضا کے لئے نہ کیا جائے۔)
جہاد فی سبیل اللہ ایک دائمی ضرورت:
جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے۔ امن کے ساتھ جنگ کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ جہاں کہیں انسانوں کے مفادات آپس میں ٹکراتے ہیں تو ان میں لڑائی شروع ہو جاتی ہے۔