کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 248
سکتا‘‘۔ انہی ’’اسباب‘‘ کو اسلام نے ختم کیا۔ اور انہی اسباب کے خاتمہ کی وجہ سے اسلام ہر دور میں پھیلتا رہا اور ہندوستان میں بھی پھیلا۔ اب یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ ان ہریجنوں نے ہندومت کی ذات پات کے اس انسانیت کش تقسیم سے تنگ آکر آخر اسلام ہی کیوں قبول کیا۔ کوئی دوسرا مذہب کیوں نہ قبول کر لیا۔ اس بات کا جواب نوائے وقت۳۱ / جولائی ۱۹۸۱ ؁ ء کی مندرجہ ذیل خبر سے آپ کو مل جائے گا۔ خبر کا عنوان ہے ’’ پانڈیچری میں ڈیڑھ ہزار برہمن مسلمان ہوگئے۔‘‘ ’’ پانڈیچری ۔ ۳۰ / جولائی (ن۔ا) ہریجنوں کے لیڈر مسٹر سی کرشنا مورتی نے مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد اخباری نمائندوں کو بتایا کہ عیسائی مذہب قبول کرنے سے سماجی حیثیت بلند نہیں ہوتی۔لیکن مسلمان ہونے سے ہمارا سماجی مرتبہ بڑھ جاتا ہے۔ہمارایہ فیصلہ حتمی ہے اور اس میں کوئی سیاسی مصلحت نہیں …واضح رہے کہ اس سے قبل تامل ناڈو کے موضع مینا کشی پورم میں ہریجنوں نے اجتماعی طور مذہب اسلام قبول کر لیا ہے‘‘[1]۔ (۲) قانونی مساوات: قانونی مساوات سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ کا کوئی ممتاز سے ممتاز فرد حتٰی کہ صدر مملکت بھی قانون کی دسترس سے بالا تر نہیں ہوتا ۔ یہ ایک ایسا امتیاز ہے۔ جو اسلامی ریاست کے علاوہ اور کہیں پایا جانا ممکن نہیں۔ کیونکہ اس ریاست میں اقتدار اعلیٰ اللہ کی ذات ہے ۔ باقی سب لوگ ایک ہی سطح پر اس کے محکوم اور اطاعت گزار بندے۔ ایک دفعہ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو پیش کر کے یہ اعلان کر دیا۔ کہ ’’جس کسی نے مجھ سے کوئی بدلہ یا قصاص لینا ہو وہ آج لے سکتا ہے‘‘۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ کی ایک عورت فاطمہ مخزومی نے چوری کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس جرم کی سزا موقوف کرنے کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’پہلی امتوں کی ہلاکت کا سبب ہی یہ تھا کہ جب ان میں سے کوئی کمزور جرم کرتا تو اسے سزا دیتے اور اگر شریف وہی جرم کرتے تو ان کی سزا موقوف کر دی جاتی یہ تو فاطمہ مخزومی کی بات ہے۔ خدا کی قسم! اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنھا بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیتا‘‘[2] ۔