کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 236
اب اس کے مقابلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایفائے عہد کے واقعات بھی سن لیجئے کہ کیسے نازک موقعوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفائے عہد پر اپنے ہر طرح کے مفادات کو قربان کردیا۔ (۱) اسی بئر معونہ کے حادثہ میں ایک صحابی عمرو بن امیہ بچ نکلے لیکن بعد میں گرفتار ہوگئے۔ عامر بن طفیل، جس نے ان قاریان کو شہید کروایا تھا…نے عمرو رضی اللہ عنہ بن امیہ کو دیکھ کر کہا کہ میری ماں نے ایک غلام آزاد کرنے کی منت مانی تھی۔ لہٰذا میں یہ منت پوری کرنے کی خاطر عمرو بن امیہ کو چھوڑتا ہوں۔ عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کو راستے میں اسی قاتل قبیلہ کے دوافراد مل گئے تو آپ نے ان کو قتل کردیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ان دو آدمیوں کو امن دے چکے تھے۔ جس کا عمرو بن امیہ کو علم نہ تھا۔ اب حالات کا تقاضا یہ تھا کہ بنو عامر سے جتنی بھی ہوسکے ان کی غداری کی وجہ سے ان پر سختی برتی جاتی۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عہد کا لحاظ رکھتے ہوئے ان دونوں آدمیوں کا خون بہا ادا کردیا[1]۔ (۲) حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو حسیل رضی اللہ عنہ کسی سفر میں کفار کے ہتھے چڑھ گئے۔ انہوں نے جنگ میں عدم شرکت کا وعدہ کیا تب ان کی جان چھوٹی۔ جنگ بدر میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ بیان کیا۔ اس وقت مسلمانوں کو ایک ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جنگ میں شامل ہونے کی اجازت نہ دی اور فرمایا’’ہم ہر حال میں وعدہ وفا کریں گے۔ ہم کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مدد درکار ہے‘‘۔[2] (۳) صلح حدیبیہ کی شرائط لکھی جا چکی تھیں لیکن ابھی معاہدہ پردستخط نہیں ہوئے تھے۔ کہ قریش کے نمائندہ سہیل بن عمرو کے لڑکے ابو جندل رضی اللہ عنہ قید سے فرار ہوکر پابہ زنجیر مسلمانوں کے سامنے گر گئے۔ وہ اپنے زخم دکھادکھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کررہے تھے کہ آپ مجھے واپس نہ کیجئے ، مسلمان پہلے ہی بھرے بیٹھے تھے، تڑپ اُٹھے ، بیعت رضوان مکمل ہوچکی تھی۔ اس حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام مسلمانوں کی ناراضی کی پروانہ کرتے ہوئے محض ایفائے عہد کی خاطر ابو جندل کو واپس کردیا۔اور فرمایا۔ ’’ابو جندل رضی اللہ عنہ اصبر اور ضبط سے کام لو ۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اور مظلوموں کے لیے کوئی
[1] الفاروق ص ۱۶۷ شبلی نعمانی