کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 233
کیا‘‘۔ پھر فرمایا:’’جس کسی نے ہم سے دھوکہ کیا اس کا ہم سے کوئی واسطہ نہیں‘‘[1]۔ اسی طرح ایک دکان دار کو دیکھا وہ ذرا کم تول رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا[2] زِنْ وَاَرْجِحْ (تول تو ذرا جھکتا تول) یہ منڈی کی بات تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جرنیلوں کی کارکردگی پر بھی کڑی نظر رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم میں خالدبن ولید رضی اللہ عنہ کو سپہ سالار بنایا۔انہوں نے چند ایسے آدمیوں کو قتل کر دیا جنہوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی تو آپ حضرت خالد رضی اللہ عنہ سے سخت برہم ہوئے اور پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ تو خالد ص نے جواب دیا کہ ان لوگوں نے جان بچانے کی خاطر یہ کلمات کہے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ؟’’ کیا تم نے ان کا دل چیر کے دیکھ لیا؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر فرمایا۔’’ اے اللہ ! میں خالد رضی اللہ عنہ کے اس کام سے بری الذمہ ہوں ۔‘‘ بعد ازاں آپ نے مقتولین کا خون بہا بھی ادا کر دیا۔ (حوالہ جات پہلے دئیے جا چکے ہیں) اور بھی ایسے کئی واقعات ہیں جنہیں احتساب کی بنیاد قراد دیا جا سکتا ہے۔ دَورِ فاروقی میں حضرت عمرص نے باقاعدہ احتساب کا الگ محکمہ قائم کیا۔ فحاشی کے سدِباب کے لیے وعید‘ سزائیں اور حدود سب طریقے تجویز کیے گئے ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے لیے عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ پہلی عدالت خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تھی جن کے فیصلے مسجد نبوی میں ہوتے تھے۔ چوری اور زنا کے کئی جرائم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجرموں کو سزائیں دیں۔ دَورِ فاروقی میں قضا و عدل کا الگ محکمہ ہوا۔ جہاں انصاف مفت حاصل ہوتا تھا اور جلد بھی۔ بسا اوقات یوں بھی ہوا۔ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا دُرہ پکڑے بازار میں گشت کر رہے ہیں۔ کہیں کوئی جھگڑا یا جرم ہوتا دیکھا۔ موقعہ پر شہادتیں لیں۔ اور اسی مقام پر سزا سنا کر اسے نافذ بھی کر دیا۔ مفت اور بلاتاخیر انصاف سے جرائم میں حیران کن کمی واقع ہوگئی- تجربہ شاہد ہے کہ انصاف میں تاخیرجرائم کو کم کرنے کی بجائے اس میں پیہم اضافہ کا سبب بنتی ہے۔ عقیدہ آخرت اور ارکان اسلام کی ادائیگی سے تقوٰی پیدا ہوتا ہے۔ جو انسانوں کو ایسے تمام گناہوں سے رُکنے کا موثر سبب بنتا ہے جن تک قانون کی دسترس نہیں۔ اس طرح فحاشی کے