کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 231
اس سلسلے میں نپولین بونا پارٹ کا کردار اس ایک واقعہ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کو ۱۷۹۹؁ء میں چار ہزار ترکی فوج نے اس شرط پر نپولین کی اطاعت قبول کی تھی کہ ان کی جان بخشی کی جائے۔ یہ مفتوح نہ تھی بلکہ نپولین سے امان یافتہ تھی۔ لیکن نپولین نے انہیں امان دینے کے باوجود اس بنا پر قتل کروادیا کہ وہ ان کے لیے خوراک مہیا نہیں کرسکتا۔ نہ ہی انہیں مصر روانہ کرسکتاہے۔ اس پہلو سے جب ہم حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار پر نگاہ ڈالتے ہیں تو وہ دنیا کے تمام جرنیلوں سے بلند مقام پر نظر آتے ہیں۔ (۱۰)مفتوحہ علاقوں میں نظام عدل کا قیام: فتح کے بعد سب سے اہم مسئلہ مفتوحہ علاقہ میں نظام عدل کا قیام ہے۔ دنیوی فاتحین کے لیے یہ نہ کوئی مسئلہ ہوتا ہے نہ اس کی ضرورت سمجھی گئی ہے۔ لیکن ایک اسلامی سپہ سالار کے لیے سب سے اہم مسئلہ ہی یہ ہے۔ اور اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو جہاد کا مقصد ہی نظام عدل کا قیام ہے۔ اور اسلامی نقطہ نظر سے اصل کامیابی دشمن کو میدان جنگ میں شکست دینا نہیں بلکہ مفتوحہ علاقہ میں عدل وانصاف قائم کرنا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّكَّنّٰهُمْ فِي الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ ﴾(۲۲۱) (یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین پر قبضہ دیں تو نماز قائم کریں زکوٰۃ ادا کریں ۔ اچھی باتوں کا حکم دیں اور بُری باتوں سے روکیں گے۔) آیت بالا میں نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا تعلق تو صرف مسلمانوں سے ہے مگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکا کام پوری اطاعت گزار رعایا کو محیط ہوتا ہے۔ خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اس فریضہ کو ادا کرنے کیلئے چار چیزوں کا اہتمام ضروری ہے۔ قیامِ امن ‘ تعلیم‘ احتساب اور فحاشی کا سدباب ۔ دورِ نبوی عرب کا سارا علاقہ اسلام کے زیر نگین آچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات صوبوں میں تقسیم کیا۔ ہر صوبہ میںایک والی مقرر کیا جاتا تھا ایک عامل اور ایک قاضی والی گورنر اور سپہ سالار دونوں کے فرائض سرانجام دیتا تھا۔ گویا داخلی امن اور دفاعی امور دونوں کا وہ ذمہ دار ہوتا تھا۔ عامل بیت المال کے انتظام پر مامور تھا۔ اور قاضی‘ جج یا صوبہ کے چیف جسٹس کے فرائض