کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 23
جان کا جہاد صرف قتال فی سبیل اللہ کی صورت میں ہی ہو سکتا ہے۔ جو امام وقت کے اعلان اور اس کی ماتحتی میں ہی ہو سکتا ہے۔
(۳) اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کر دینا بھی (جو دراصل جہاد بالنفس یا اصلاح خویش ہی کی آخری اور ترقی یافتہ شکل ہے) مال کی قربانی کے بغیر سرانجام نہیں پا سکتا۔ اسلحہ کے حصول اور زاد سفر کے لئے مال کی ضرورت ہوتی ہے۔ جس کے بغیر قتال فی سبیل اللہ کا تصور ناممکن ہے۔
(۴) بعض مجبور اور معذور لوگ جہاد بالسیف میں عملاً حصہ نہیں لے سکتے۔ لیکن وہ مالی تعاون کر سکتے ہیں پھر بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو جان تو پیش کر سکتے ہیں۔ لیکن مالی ضرویات کے لئے ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اور مالی تعاون کرنے والوں کی امداد اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کا مالی تعاون بھی جہاد میں بالفعل شامل ہونے کا درجہ رکھتا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:-
((مَنْ جَهَّزَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَقَدْ غَزَا مَنْ خَلَّفَ غَازِیًا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِخَبَرٍ فَقَدْ غَزَا)) (بخاری، کتاب الجهاد والسیر- باب فضل من جهز غازیاً)
جو کوئی جہاد کے لئے کسی غازی کو سامان مہیا کرے تو گویا اس نے خود جہادکیا (اسے اتنا ہی ثواب ملے گا) اور جس نے غازی کے گھر کی اس کے بعد خبر رکھی اس نے بھی گویا خود جہاد کیا۔
انہی وجوہات کی بنا پر قرآن کریم اور احادیث میں جہاں کہیں بھی جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر آیا ہے۔ تو جان و مال کو لازم و ملزوم قرار دیاگیا ہے۔ اور چونکہ یہی چیزیں انسان کے نزدیک سب سے قیمتی متاع ہیں۔ لہذا جہاد بالسیف کی باقی تمام اعمال پر فضیلت ثابت ہو جاتی ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ کیا ہے؟
گو جہاد فی سبیل اللہ کا لفظ قتال فی سبیل اللہ سے زیادہ وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے تاہم قرآن کریم اور احادیث میں بیشتر مقامات پر جہاد فی سبیل اللہ سے اس کی سب سے اہم قسم قتال فی سبیل اللہ ہی مراد لی گئی ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا آیت و احادیث سے بھی واضح ہے۔
اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ جہاد فی سبیل اللہ کی تعریف کیا ہے؟ یہی بات آپ صلی اللہ علیہ وسلم