کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 227
ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سپاہیانہ زندگی ۲ ھ سے شروع ہو کر ۹ ہجری پر ختم ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے جو علاقہ فتح کیا وہ خیبر تھا جو ۷ ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد فتح کیا گیا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سپاہیانہ زندگی کے ۷ سالوں میں سے پانچ سال بعد صرف خیبر کا محدود سا علاقہ فتح ہوا جب کہ اسلا م اس وقت تک اپنی ترقی کی کئی منازل طے کرچکا تھا۔ اگر کشو رکشائی ہی اسلام کا مطمح نظر ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدا ہی میں مدینہ کے مضافات کو بزور شمشیر فتح کر کے انہیں اپنی ریاست کے ساتھ ملانے کی کوشش فرماتے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے محض کشو ر کشائی کوئی قابلِ تعریف فعل نہیں۔ کیونکہ فتح کے بعد ایک اسلامی حکومت پر بہت سی ذمہ داریاں آن پڑتی ہیں، دورِ فاروقی میں جب عراق و ایران کا سارا علاقہ فتح ہو گیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ کاش ! ہمارے اور فارس کے درمیان آگ کا پہاڑ حائل ہوتا کہ نہ وہ ہم پر حملہ کر سکتے نہ ہم ان پر چڑھ کر جا سکتے۔‘‘ (الفاروق ص۲۳۸) جب حمص کا علاقہ مسلمانوں نے فتح کر لیا۔ تو سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ چاہتے تھے کہ ہرقل کے پایہ تخت پر فوج کشی کریں۔ چنانچہ اس مقصد کے لیے کچھ فوجیں اس طرف بھیج بھی دیں۔ لیکن دربار خلافت سے حکم پہنچا کہ اس سال اور آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے۔ چنانچہ اس ارشاد کے موافق فوجیں واپس بلالی گئیں۔‘‘ (الفاروق ص ۱۸۸) احنف بن قیس صنے جب خراسان فتح کرلیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ خراسان اسلام کے قبضہ میں آ گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فتوحات کی وسعت کو چنداں پسند نہیں کرتے تھے۔ خط پڑھ کر فرمایا کہ ہمارے اور خراسان کے درمیان میں آگ کا دریا حائل ہو تا تو کیا خوب ہوتا۔ احنف کے مردانہ وار حوصلوں کی اگرچہ تعریف کی اور فرمایا کہ احنف شرقیوں کا سرتاج ہے۔ تاہم جواب یہی لکھا کہ جہاں تک پہنچ چکے ہو وہاں سے آگے نہ بڑھنا۔ (ایضاً ص ۲۵۱) حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی انتہائی خواہش تھی کہ مصر کو فتح کیا جائے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ آڑے آتے تھے۔ با لآخر عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کے اصرار پر راضی ہو گئے اور چار ہزار فوج ساتھ کر دی۔ اس پر بھی ان کا دل مطمئن نہ تھا۔ عمر و رضی اللہ عنہ سے کہا خدا کا نام لے کر روانہ ہو لیکن مصر پہنچنے سے پہلے اگر میرا خط پہنچ جائے تو الٹے پھر آنا۔ عریش پہنچے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خط مل گیا۔ اگرچہ اس میں پیش قدمی سے روکا گیا تھا۔ لیکن چونکہ شرطیہ حکم تھا‘ عمر و رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تو ہم مصر