کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 224
سپہ سالار اور فوج کے باہمی تعلقات: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی فوج سے پوری ہمدردی تھی۔ فوج کے دُکھ سکھ اور کام کاج میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر کے شریک ہوتے تھے جنگ احد میں صحابہ کو دکھ پہنچا تو آپ کو بھی دکھ پہنچا اور حنین کی شکست کے آثار نظر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنی جان بچانے کی فکر کریں بلکہ میدان میں کھڑے ہوکر للکارا ۔ منتشر اور پریشان صحابہ ث کو مجتمع کیا صحابہ کو نئی زندگی ملی جس کی وجہ سے دونوں مقامات پر جنگ کا نقشہ ہی بدل گیا۔ ان جنگوں سے پیشتر ہجرت کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھی زیادہ مروت وایثار کا مظاہرہ فرماچکے تھے۔ مسلمانوں کو مدینہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم مل چکا تھا۔ اور وہ سب یکے بعد دیگرے مکہ سے مدینہ کی طرف کوچ کررہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ہر روز مصر ہوتے کہ حضور ا بھی مدینہ چلے جائیں۔ مگر ہمیشہ یہی جواب ملتا کہ ’’ابھی میرے جانے کا وقت نہیں آیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوچ کا حکم نہیں ملا ہے‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہ تھی کہ سب مسلمان بخیر وعافیت مدینہ پہنچ جائیں تب آپ ادھر کا رُخ کریں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت مکہ کو الوداع کہا جب باقی مسلمان مدینہ پہنچ چکے تھے۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق باقی رہ گئے تھے۔ اور جس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے لیے گھر سے باہرنکلے تو سازشی قریشیوں کا مسلح پہرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کے لیے گھر کا محاصرہ کیے ہوئے تھا۔ اس معیار پر نپولین بونا پارٹ کو دیکھئے۔ وہ بلاشبہ اپنے سپاہیوں کے کردار سے انفرادی واقفیت رکھتا تھا۔ فوج کے اکثر سپاہیوں کے اُسے نام تک یاد تھے۔ وہ اُن سے کام لینا بھی خوب جانتا تھا لیکن آڑے وقتوں میں اسے صرف اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی تھی۔ مصر میں انگریزوں کے مقابلہ میں عکہ کے مقام پر اسے شکست ہوئی تو وہ اکیلا وہاں سے فرار اختیار کرکے فرانس چلا آیا۔ اسے یہ فکر لاحق نہیں ہوئی کہ اس کی فوج کس حال میں ہے۔ واٹر لو کے مقام پر اسے شکست ہوئی تو وہاں سے بھی راہ فرار اختیار کی اور جہاز پر سوار ہونے کو تھا کہ گرفتار ہوگیا۔ رسول اللہ کی فو ج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف اطاعت گزار ہی نہ تھی جان نثار بھی تھی۔ فوج اور