کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 221
پیچھے تم سے جھگڑنے لگے۔ گویا موت کی کی طرف جاتے ہیں اور وہ اسے دیکھ رہے ہیں۔) اب صُورت یہ ہوئی کہ ایک طرف صرف 313آدمی ہیں جو پوری طرح مسلح بھی نہیں۔اور جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنگ لڑنا پڑے گی تو ان میں سے اکثر دل چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پھر ان کے اپنے کھانے پینے کے سامان کی قلت ہے اور سامانِ جنگ کی بھی۔ اور دوسری طرف صورت یہ ہے کہ لشکر کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سب لوگ مسلح ہوکر نکلے ہیں کہ تجارتی قافلہ کو مسلمانوں کی دست بُرد سے بچا کر لانا ہے۔ اور اِسی مُد بھیڑ میں مسلمانوں کا استیصال بھی کرنا ہے۔ لہذا ان کے ساتھ اسلحہ جنگ بھی وافر مقدار میں ہے۔ گھوڑے بھی بہت ہیں۔ فوج بہادر ان قریش پر مشمل ہے۔ کھانے پینے کا سامان اتنا وافر ہے کہ روزانہ دس 10اونٹ ذبح ہوتے ہیں۔ ۔ پینے کو شراب بھی کافی ہے۔ اور جُملہ آرام وآسائش کے سامان فراہم ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسی بے دل، نہتی اور کم تعداد کو ایسے مسلح اور کثیر دشمن سے بھڑا دینا اور پھر اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے فتح حاصل کرنا ایسی مثال ہے جس کی نظیر مشکل ہے۔ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا پہلا تجربۂ کارزار تھا۔ (۵) فتح وشکست: دنیا نے بارہا دیکھا ہوگا کہ ایک قلیل جماعت ایک لشکرِ جرّار پر غالب آگئی ۔ لیکن ان حدود وقیود کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فتح پانا شاید دنیا بھر میں ایک ہی مثال ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے تربیت یافتہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنگ موتہ میں 3ہزار مسلمانوں کے لشکر سے ایک لاکھ عیسائیوں کا منہ پھیر دیتے ہیں‘ اور فائز المرام واپس آتے ہیں لیکن اگر حالات کی میزان میں دیکھا جائے تو جنگ بدر کی فتح اس سے زیادہ شاندار نظر آتی ہے۔ وجوہ درج ذیل ہیں! (۱) جنگ موتہ میں پہلے مسلمانوں کے تین سپہ سالار یکے بعد دیگرے شہید ہوجاتے ہیں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا نمایاں کارنامہ یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قلیل لشکر کو اس لشکر جرار سے بچا کر … پسپا ہوکر نہیں بلکہ ان کوپسپا کرکے… واپس لے آئے۔ دشمن کے کتنے
[1] ایک ہندو مصنف موتی لال ماتھر‘اسلامی اخوت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اب میں اس تعلیم کا نتیجہ دکھلاتا ہوں جس نے مسلمانوں کے ا ندر اخوت و اتحاد اور محبت و مروت کا ایسا گہرا رشتہ قائم کر دیا تھا- جس نے چند ہی سالوں میں د نیا کی جغرافیائی تقسیم کو یکسر بدل دیا تھا اور آج بھی اس کا اثر دنیا کی تاریخ اور جغرافیہ پر باقی ہے- یعنی دنیا کے ایک حصہ کو اسلامی ممالک کے نام سے موسوم کر دیا گیا ہے-‘‘ (سرور کونین ص ۴۴)