کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 22
گا ضرور بہشت میں جائے گا۔ آج کے دور میں تلوار سے مراد ہر وہ اسلحہ لیا جائے گا جو موجودہ جنگوں میں استعمال ہوتا ہے۔
جہاد بالسیف کی فضیلت کی وجہ :
ہر ذی حیات میں ’’تحفظ خویش‘‘ کا جذبہ فطری طور پر ودیعت کیا گیا ہے۔ گویا جان ہی وہ متاع عزیز ہے جسے انسان اور اسی طرح ہر حیوان ہر قیمت پر بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ تو جو شخص اللہ کا بول بالا کرنے کے لئے اپنی جان تک دینے سے دریغ نہیں کرتا اس کی نجات اور جنت کے حصول میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے؟
جہاد بالمال کی اہمیت:
جان سے دوسرے درجہ پر مال کی باری آتی ہے۔ مال ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعہ انسان اپنی ذات کے لئے سہولتیں مہیا کرتا ہے۔ اور بسا اوقات مال اس کی جان کے تحفظ کا ذریعہ بھی بن جاتا ہے پھر کچھ لوگ حصول زر کے معاملہ میں ایسے حریص واقع ہوتے ہیں کہ وہ اس کے لئے اپنی جان تک نثار کر دیتے ہیں۔ گویا انسان کے لئے سب سے قیمتی متاع یہی دو چیزیں ہیں۔اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں چیزوں کا مسلمان سے مطالبہ کیا ہے۔ قرٰآن کریم میں کہیں تو ’’جان‘‘ کا لفظ ’’مال‘‘ سے پہلے استعمال ہوا ہے جیسے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰي مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّةَ ۭ} (۹:۱۱۱)
اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیںاور ان کے مال خرید لئے ہیں۔ اور اس کے عوض ان کے لئے بہشت تیار کی ہے۔
اور بہت سے مقامات پر مال کا لفظ جان سے بھی پہلے استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ اوپر ’’جہاد بالسیف کی فضیلت‘‘ کے عنوان کے تحت درج شدہ آیت میں دو بار مال کا لفظ نفس سے پہلے استعمال ہوا ہے۔ نیز قرآن کریم میں اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔
مال کا لفظ جان سے بھی پہلے استعمال کرنے کی بھی چند وجوہ درج ذیل ہیں:
(۱) بعض لوگوں کے نزدیک جان کی قیمت مال سے کم تر ہوتی ہے۔ اور وہ حصول زر کے لئے اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔
(۲) مال سے جہاد ہر وقت اور کئی صورتوں میں ہو سکتا ہے جس کی تفصیل اوپر گزر چکی۔ جبکہ