کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 214
کرنے یا غلام بنا کر بیچنے کی بجائے یا تو ان کا تبادلہ کرلیا جائے یا فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ لیکن دوسرے اخلاقی ضوابط کی طرح اس کا اثر بھی بہت دیر بعد میں ہوا۔ 1799ء میں یورپ کے سب سے بڑے جرنیل نپولین بونا پارٹ نے یا فا کی چار ہزار ترکی فوج کو ، جس نے جان بخشی کا وعدہ لے کر اطاعت قبول کی تھی صرف اس لیے قتل کردیا کہ وہ نہ تو ان کی خوراک کا انتظام کرسکا، نہ ہی انہیں مصر بھیج سکا۔ اس کے ایک صدی بعد 1896ء میں کیوبا میں ہسپانوی کپتان جنرل ویلر نے اسیرانِ جنگ کو باغی قرار دے کر قتل کرادیا اور ہزاروں نہتے باشندوں کو قید کرکے انہیں بھوک کے عذاب میں مبتلا کردیا۔ حتّٰی کہ وہ مرگئے۔ 1907ء کی دوسری ہیگ کانفرنس نے بلا شبہ اسیرانِ جنگ کے لیے بہت سے مفید قانون بنائے۔ لیکن ان قوانین کی منظوری کا معرکہ اخلاقی اقدار کا احترام نہیں بلکہ خوفِ انتقام ہے اسیرانِ جنگ کو یہ مراعات محض اس لیے بخشی گئیں کہ ہر فریق اپنے اسیروں کی بھلائی چاہتا تھا۔ اس کانفرنس میں جو مراعات اسیرانِ جنگ کو دی گئیں ان کا خلاصہ یہ ہے:۔ اسیرانِ جنگ شخصی قید میں نہیں بلکہ حکومت کی قید میں ہوں گے۔ حکومت انہیں نظر بند رکھے گی قیدی نہ بنائے گی۔ حکومت ان قیدیوں کے درجہ اور عہدہ کے مطابق ان سے کام لے کر انہیں معاوضہ بھی عطا کرے گی جو اس کے ملک میں رائج ہے۔ اگرکوئی قیدی جنگ میں دوبارہ حصہ نہ لینے کا حتمی وعدہ کرے تو اس کو رہا کردینا چاہیے۔ قید کرنے والی حکومت ان کے نام ، پتہ اور حالات کی تشہیر کرے گی۔ اور ان کی ڈاک کا باقاعدہ بندوبست کیا جائے گا۔ قیدیوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔ اور وفات پر ان کی تجہیز وتکفین حکومت کی ذمہ داری ہے۔ افسروں کو بھی حکومت ان کے درجہ کے مطابق اپنے ملک میں مروجہ تنخواہ ادا کرے گی جو بالآخر خود ان کی حکومت ادا کرے گی۔ جب صلح کے بعد اسیرانِ جنگ کا تبادلہ کرلیا جائے گا۔ اب دیکھئے ان مراعات میں سے کوئی رعایت ایسی نہیں۔ جو اسلام نے قیدیوں کو نہ دی ہو۔ البتہ جو زائد مراعات اسلام نے دی ہیں وہ یہ ہیں:۔ (۱) قیدیوں پر جو خرچ ہوگا۔ وہ مغلوب حکومت کے ذمہ واجب الادا نہیں ہوتا۔ (۲) قیدیوں سے مساوی سلوک کے بجائے بہتر سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔ جس کی شہادت خود دور نبوی کے اسیروں نے دی۔