کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 211
(۳) زہریلی[1] اور دم گھونٹنے والی گیسیں۔ (۴) بیلونوں اور ہوائی جہازوں سے پھٹنے والے گولے برسانا۔ یہ تجاویز بھی بس صفحہ قرطاس کی زینت ہی بنی ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں ان تمام مہلک آلات کا فریقین کی طرف سے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ پھر دوسری جنگ عظیم میں ایٹم بم کے استعمال نے تو ان تجاویز کے پرخچے اُڑا دئیے۔ اسلام نے اس سلسلہ میں ایک زریں اصول بتادیا ہے۔ کہ بے مقصد اور بلا ضرورت دشمن کے جان ومال سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔ محض دہشت پھیلانے کے لیے ایسے افعال کا کوئی جواز نہیں۔ اور اس اصول پر عمل درآمد کی بہترین مثال فتح مکہ ہے۔ رہا دشمن کے جدید سے جدید تر مہلک آلات کے استعمال کا مسئلہ۔ تو اسلام نے اس سلسلہ میں یہ ہدایت دی ہے کہ ایسے باہمی سمجھوتے کرنے کے بعد وہ پہل کر کے عہد شکنی کے مرتکب نہیں ہوسکتے ہاں اگر دشمن پہل کرے تو جوابی کاروائی کی جاسکتی ہے۔ مگر وہ بھی اسی حد تک جس حد تک دشمن نے زیادتی کی ہو۔ اور اگر پھر بھی عفوو درگزر سے کام لیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ ارشاد باری ہے: ﴿ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ ۠ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ﴾ (۲/۱۹۴) (جو کوئی تم پرزیادتی کرے تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے کی ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔) دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿ وَجَزٰۗؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۚ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ ﴾ (۴۲:۴۰) (بدی کا بدلہ بدی ہے اسی کے مثل، اور جو کوئی معاف کردے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔) ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿ وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ ١٢٦؁ ﴾(۱۶/۱۲۶) (اگر تم سزا دو تو اتنی سزا دو جتنی تمہیں تکلیف دی گئی ہے ۔ اور اگر صبر کرو تو یہ صابروں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔)