کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 21
آیت بالا سے مندرجہ ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
(۱) جہاد کی تمام تر انفرادی کوششیں ’’قاعدین‘‘ کے زمرہ میں آتی ہیں۔
(۲) ان انفرادی کوششیں کرنے والوں (قاعدین) اور قتال فی سبیل اللہ میں جان و مال سے حصہ لینے والوں (مجاہدین) سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے اچھا وعدہ کر رکھا ہے۔
(۳) تاہم مجاہدین کو ان کے اجر عظیم کی وجہ سے قاعدین پر کہیں زیادہ فضیلت ہے اور یہی بات اس ایک آیت میں تین بار دہرائی گئی ہے۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((قِیْلَ یَا رَسُوْلَ اللّٰه! اَیُّ النَّاسِ اَفْضَلُ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: ’’مُؤْمِنُ یُجَاهِدُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِنَفْسِه وَمَالِه‘‘))
(بخاری کتاب الجهاد والسیر- باب افضل الناس مومن بیجاهد بنفسه و ماله فی سبیل الله)
(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ ’’لوگوں میں کون شخص سب سے افضل ہے۔ آپ نے فرمایا ’’وہ مومن جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال اور جان سے جہاد کرے‘‘۔)
ایک دوسرے مقام پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات سے متعلق فرمایا:
((وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِه لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ اُقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ ثُمَّ اُحْیَا ثُمَّ اُقْتَلُ)) (بخاری کتاب الجهاد والسیر۔ باب تمنی الشهادة)
(قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھوں میں میری جان ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارہ جا ؤ ں۔ پھر زندہ کیا جا ؤ ں پھرمارا جا ؤ ں، پھر زندہ کیا جا ؤ ں پھر مارا جا ؤ ں پھر زندہ کیا جا ؤ ں پھر مارا جا ؤ ں۔)
مندرجہ بالاحدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار شہادت کی آرزو کو دہرا کر سب اعمال پراس کی فضیلت کامکمل ثبوت فراہم کر دیا ہے۔
ایک اور مقام پر آپ نے فرمایا:
{وَاعْلَمُوْا اَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّیُوْفِ }(بخاری کتاب الجهاد والسیر- باب الجنة تحت بارقة السیوف)
((لوگو! جان رکھو کہ بہشت تلواروں کے سائے تلے ہے۔))
اس حدیث میں جہاد اور بہشت کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ یعنی جو کوئی جہاد کرے