کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 207
نازک اوقات میں اور اپنا نقصان اٹھا کر بھی عہدومعاہدہ کو حتی الامکان پورا کیا ہے۔ جہاں تک نظری حیثیت کا تعلق ہے مغربی قانون بھی وعدے کی پابندی پر زور دیتا ہے کیونکہ معاہدات کیے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ فریقین ایک طے شدہ امر کے مطابق مطمئن ہوکر اپنی پالیسی وضع کریں۔ لیکن عملی حیثیت سے ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب کی مہذب دنیا نے موقع سے اُٹھانے کی خاطر ظاہری معاہدات کے زیرِ زمین خفیہ معاہدات کا ایک جال بچھا رکھا ہے۔ اور اس منافقت کا نام فن سیاست یا ڈپلومیسی DIPLOMACYرکھ لیا ہے۔ اس ڈپلومیسی اور خفیہ معاہدات کا منظر جو پہلی جنگ عظیم میں سامنے آیا ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے:۔ یہ یاد رہے کہ ابتدا میں اس جنگ میں حصہ لینے والے صرف چھ سات ممالک تھے۔ ایک فریق جرمنی، آسٹریلیا اور ہنگری پر مشتمل تھا۔ دوسرے فریق میں برطانیہ، فرانس روس اور اٹلی شامل تھے۔ یہی دوسر افریق اپنے آپ کو حق پرست ہونے کا دعویٰ لے کر اٹھا تھا اور اتحادی کہلاتا تھا۔ اتحادی اپنے مفادات کی خاطر ترکی حکومت کا زور ختم کرنا چاہتے تھے۔ لہٰذا عرب ممالک کو بغاوت پر اکسانے اور اپنے ساتھ ملانے کے لیے یہ چال چلی کہ باربار عربوں کو یقین دلایا گیا کہ’’جنگ کے اختتام پر عربوں کی ایک آزاد اور خود مختار حکومت قائم کردیں گے۔ اور انہیں بتایا کہ یہ جنگ محض عربوں کو ترکی کے پنجۂ ستم سے نجات دلانے کے لیے لڑی جارہی ہے۔ چنانچہ جب ۱۱/مارچ 1917ء کو جنرل ماڈMAUDبغداد میں داخل ہوا تو اس نے ایک عام اعلان شائع کیا جس کے الفاظ یہ تھے: ’’ہم آپ کے شہر میں فاتحانہ حیثیت سے نہیں داخل ہوئے۔ ہم آپ کے دشمن نہیں۔ بلکہ نجات دہندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو آزادی دلوانے آئے ہیں ۔ بغداد کے باشندوں کو جان لینا چاہیے کہ ہم ان کے ملک پر حکومت نہیں کرنا چاہتے۔ ہمارا مقصد تو یہ ہے کہ ان کے علماء فقہا کی دیرینہ آرزوئیں پوری ہوں۔ ان کا ملک ایک مرتبہ پھر آزاد ہو۔ اور اس میں ایسے آئین وقوانین نافذ ہوں جو ان کی مقدس شریعت اور قومی روایات کے مطابق ہوں‘‘۔ اور جنگ کے خاتمہ پر فرانس اور انگلستان کی جانب سے ایک مشترکہ منشور بلادِ عرب میں شائع کیا گیا۔ جس میں نہایت بلند آہنگی سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ: ’’یہ جنگ جو دنیا کو جرمنی کے توسیعی عزائم سے بچانے کے لیے برپا کی گئی تھی۔ اس