کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 205
یہ دونوں ٹیکس ویسے ہیں جو ہر ملک میں رعایا سے وصول کیے جاتے ہیں۔ حکومت خواہ اپنی ہو یا غیر قوم کی، یہ ٹیکس ہر قوم اور ہر ملک میں رائج ہیں۔ اور حکومتوں کے اخراجات کا پیشتر حصہ انہی ٹیکسوں سے پورا کیا جاتا ہے۔ اسلام نہ تو مفتوح اقوام پر کوئی ناجائز ٹیکس عائد کرتا ہے۔ نہ ہی انہیں اقتصادی طور پر کمزور یا مفلوج کرنے کا خواہش مند ہے۔ بلکہ مسلمانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے۔ کہ ان کا زیر اثر حلقہ پھلے پھولے۔ مغرب کی مہذب اقوام جزیہ اور خراج جیسے ٹیکس عائد نہیں کرتیں۔ اور انہوں نے مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے جزیہ اور خراج پر اعتراضات کی بوچھاڑ بھی کی ہے۔ لیکن ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ کہ اس پہلو میں مفتوح اقوام کے ساتھ ان کا اپنا کردار کیسا ہے۔ جنگ عظیم اول میں 1917ء میں فرانس اور روس میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا کہ دریائے رہائن کے مغربی جانب کا تمام علاقہ جرمنی سے چھین کر فرانس کے ساتھ ملحق کردیا جائے گا۔ رہائن کا یہ علاقہ نہایت زرخیز تھا۔ لہذا فرانس نے اس خفیہ معاہدہ کو اپنے دوستوں یعنی برطانیہ اور امریکہ وغیرہ سے بھی صیغۂ راز میں رکھا۔ جب اختتام جنگ کے بعد صلح کانفرنس یا معاہدہ میں تقسیم غنائم کا مسئلہ پیش ہوا تو امریکہ اور انگلستان نے ڈٹ کر فرانس کے اس مطالبہ کی مخالفت کی۔ آخر فرانس کے وزیر اعظم موسیو کلیمنشو نے یہ تجویز پیش کی کہ جرمنی پر جو تاوان جنگ عائد کیا گیا ہے۔ اس کی ضمانت کے طور پر رہائن کا علاقہ ۱۵ سال کے لیے فرانسیسی قبضہ میں دے دیا جائے۔ اس چال کو فرانس کے سیاست دان بھی نہ سمجھ سکے اور انہوں نے وزیر اعظم کی مخالفت کی تو وزیر اعظم صاحب نے جواب دیا کہ:۔ ’’۱۵ سال کی تعین کا مقصد یہ ہے۔ کہ جرمنی کے ہاتھ سے اس کے بہترین علاقے چھین کر اس پر اتنا تاوان ڈال دیا جائے کہ وہ اس کو مدت معینہ کے اندر ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اور ہم پندرہ سال گزرنے کے بعد علاقہ رہائن کو ہمیشہ کے لیے ملحق کرلیں‘‘۔ چنانچہ وزیراعظم کی اس تجویز پر اپنوں اور بے گانوں سب کا اتفاق ہوگیا۔ دوسرا کام فرانس نے یہ کیا کہ پولینڈکی نئی ریاست کا نقشہ کچھ اس طرح مرتب کرلیا کہ اس سے مشرقی پروشیاکا تعلق دولت پروشیا کے باقی علاقوں سے بالکل منقطع ہوگیا۔ اور ایسی