کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 20
(۱) جہاد فی سبیل اللہ کی بہت سی اقسام پر انفرادی طور پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر وقت اس میں دامے درمے سخنے حصہ لیتا رہے۔اگر وہ ایسا نہیں کرتا تو اس کا ایمان ہی مشکوک ہوتا ہے۔ جبکہ قتال فی سبیل اللہ صرف اجتماعی شکل میں ہوتا ہے۔ (۲) جہاد فی سبیل اللہ وسیع تر مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔جبکہ قتال فی سبیل اللہ اس کی ایک آخری شکل ہے اور محدودمعنوں میں استعمال ہوتا ہے قرآن کریم نے بھی ان دونوں الفاظ کو الگ الگ مفہوم میں استعمال کیا ہے۔ (۳) ’’جہاد‘‘ صرف فی سبیل اللہ ہی ہو سکتا ہے۔جبکہ قتال فی سبیل اللہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور دینوی اغراض و مقاصد کے ماتحت بھی- قتال دنیوی اغراض کے ماتحت ہو تو اس صورت میں یہ قتال فی سبیل اللہ نہیں ہو گا۔ خواہ لڑنے والے دونوں فریق مسلمان ہی کیوں نہ ہوں۔ جہاد بالسیف کی فضیلت: گو جہاد کی سب اقسام اپنے اپنے مقام پر بنیادی اہمیت کی حامل ہیں تاہم جو فضیلت جہاد بالسیف کو حاصل ہے وہ دوسری کسی قسم کو نہیں۔ کیونکہ اس میں انسان کو جان، مال اور وقت ہر چیز کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ مزید برآں عسکری تنظیم اس کے نتائج کو مفید تر بنانے کا موثر ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں ہے: {لَا يَسْتَوِي الْقٰعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ غَيْرُ اُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجٰهِدُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ ۭ فَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ بِاَمْوَالِهِمْ وَاَنْفُسِهِمْ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ دَرَجَةً ۭ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰي ۭ وَفَضَّلَ اللّٰهُ الْمُجٰهِدِيْنَ عَلَي الْقٰعِدِيْنَ اَجْرًا عَظِيْمًا 95؀ۙ} ( ۴:۹۵) ( جو مسلمان (گھروں میں) بیٹھنے والے ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے وہ اور جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرتے ہیں وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے- مال اور جان سے جہاد والوں کو بیٹھنے والوں پر اللہ تعالیٰ نے درجے میں فضیلت بخشی ہے اور گو نیک وعدہ سب کے لئے لیکن اجر عظیم کے لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں زیادہ فضیلت بخشی ہے۔)