کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 198
ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات اللہ تعالیٰ کے توکل کے خلاف تھی۔ اسلامی نظریہ کے مطابق گومادی وسائل سے بھر پور استفادہ بھی بہت ضروری ہے ۔ لیکن اللہ تعالیٰ پر توکل اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ جس کے سامنے بعض دفعہ مادی وسائل ہیچ نظر آنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿ كَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيْرَةًۢ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ ﴾ (۲/۲۴۹) (اور کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ایک چھوٹی جماعت اللہ کے حکم سے بڑی جماعت پر غالب آگئی۔) ان تصریحات سے بتانا یہ مقصود ہے کہ مسلمان کوشکست صرف اس صورت میں ہوتی ہے جب وہ اصول وقوانین جنگ یا اخلاقی اقدار میں سے کسی قدر سے غافل ہو جاتا ہے پھر جب مسلمانوں میں اخلاقی اور عملی طور پر انحطاط واقع ہوگیا۔ تو ان کو بھی ایسے ہی شکستوں سے دوچار ہونا پڑا جیسے دوسری اقوام کوہوتا ہے۔ علماء وفقہا ء اسلام اس بات پر متفق ہیں ۔ کہ اگر مسلمان اپنے سے دو گنا جماعت کے مقابلہ سے جی چرائیں یا ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں تو انہیں اپنے ایمان کی خیر منانا چاہیے۔ اور اس کی دلیل یہ آیت ہے: ﴿ اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ 66؀ ﴾ (۸/۶۶) (اب اللہ تعالیٰ نے تم سے بوجھ ہلکا کردیا۔ اور معلوم کرلیا کہ تم میں کسی قدر کمزوری ہے۔ پس اگر ایک سو ثابت قدم رہنے والے ہوں گے تو دو سو پرغالب رہیں گے، اور اگر ایک ہزار ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے دو ہزار پر غالب رہیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ثابت قدم رہنے والوں کا مدد گار ہے۔) شکست مسلمانوں کے لیے تازیانہ عبرت بھی ہے اور چیلنج بھی ۔انہیں اپنے اسلام کی فکر کرنا چاہیے۔ شکست کے بڑے اسباب قومی یکجہتی کا فقدان ، جہاد سے غفلت یا نفرت اور مال ودولت سے محبت ہیں جن کی طرف قرآن کریم نے بار بار توجہ دلائی ہے اور یہ تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر تم ان باتوں میں مبتلا ہوگئے۔ تو اللہ تعالیٰ تمہارے مسلمان کہلانے کی بنا پر کوئی لحاظ نہیں کرے گا بلکہ تمہاری جگہ کوئی اور قوم لے آئے گاجو مندرجہ بالا اوصاف میں تم سے بہتر ہوگی۔ شکست کے بعد مسلمان کا کافروں کی قید میں چلا جا نا ذلّت پر مز ید ذلّت ہے اور اسلا م