کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 193
پھر ان سے طوعاً یا کرہاً فوجی خدمات بھی لیا کرتی تھیں۔ اسلام میں جزیہ چونکہ دفاعی اخراجات کے عوض لیا جاتا ہے لہٰذا اگر کوئی قوم یا ملک اپنی فوجی خدمات پیش کردے تو وہ جزیہ سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی جزیہ ادا کرے تو اس سے فوجی خدمت نہیں لی جاسکتی۔ اور اگر مسلمان انہیں تحفظ مہیا نہ کرسکیں تو انہیں جزیہ واپس کرنا ہوگا۔ تفصیل کے لیے ذیل کے واقعات ملا حظہ فرمائیے:۔ (۱) جنگ اصفہان میں (۲۱ھ ) اسلامی لشکر کے سالار عبداللہ بن عبداللہ تھے اور ایرانیوں کی طرف سے قاذو سنان سالارِ لشکر تھا۔ قاذو سنان نے عبداللہ کو دعوتِ مبارزت دی۔ پہلے خود تلوار کا وار کیا۔ عبداللہ نے اس پامردی سے اس کے وار کا دفاع کیا کہ بے اختیار قاذو سنان کے منہ سے آفریں نکل گئی اور کہا میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ بلکہ شہر اس شرط پر حوالہ کرتا ہوں کہ باشندوں میں سے جو چاہے جزیہ دے کر شہر میں رہے ارو جو چاہے نکل جائے۔ عبداللہ نے یہ شرط منظور کرلی اور صلح نامہ لکھ دیا۔(الفاروق ص۲۳۹) (۲) طبرستان کے ضلعی شہر جرجان کے رئیس مرزبان نے مسلمانوں کے سالار سوید سے صلح کرلی اور معاہدہ میں بتصریح لکھ دیا کہ ’’مسلمان جرجان اور دہستان وغیرہ کے امن کے ذمہ دار ہیں۔ اور ملک والوں میں جو لوگ بیرونی حملوں کے روکنے میں مسلمانوں کا ساتھ دیں گے وہ جزیہ سے بری ہیں۔ (۳) جرجان کی خبر سُن کر طبرستان کے رئیس نے بھی جو شہسوار کہلاتا تھا۔ اس شرط پر صلح کرلی کہ پانچ لاکھ درہم سالانہ دیا کرے گا اور مسلمانوں کو ان پر یا ان کو مسلمانوں پر کچھ حق نہ ہوگا۔ (ایضاً ص۲۴۳)گویا اس صلح نامہ سے زیر دستی کا مسئلہ بھی ختم ہوگیا۔ (۴) آذر بائی جان کی فتح کے بعد باب متصل کا رئیس شہر براز خود مسلمانوں کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ میں تمہارا مطیع ہوں لیکن میری درخواست ہے کہ مجھ سے جزیہ نہ لیا جائے بلکہ جب ضرورت پیش آئے تو فوجی امداد لی جائے۔ چونکہ جزیہ درحقیقت صرف محافظت کا معاوضہ ہے۔ اس لیے شرط منظور کرلی گئی۔ (ایضاً ص۲۴۳)
[1] اساس طبقات ابن سعد ج ۲۔وفود اہل الیمن