کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 19
حالات کے لئے جنگ فرض قرار دی گئی ہے۔
اس کی دوسری مثال یوں سمجھیے کہ ہر ملک میں فتنہ اور قتل و غارت کو ختم کرنے کے لئے عدالتیں قائم کی جاتی ہیں۔ یہ عدالتیں مجرموں کو قتل‘ قید‘ جرمانہ‘ بدنی سزا‘ غرض ہر طرح کی سزائیں دیتی ہیں۔ گویا وہ مجرموں کو اس لئے قتل کرتی ہیں کہ ملک سے قتل و غارت ختم ہو۔ عدالتوں کے اس طرز عمل کو ظلم نہیں بلکہ عدل کا نام دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کا یا عدالت کا یہ طرز عمل بہرحال انفرادی قسم کے فتنہ اور ظلم کا علاج تو ہے مگر پورے معاشرہ کے بگاڑ کا علاج عدالتوں کے بس کا روگ نہیں۔ اندریں صورت حال فتنہ و فساد کے خاتمہ کی صرف یہی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ فتنہ و فساد کے اساطین کو قوت سے کچل دیا جائے۔ قرآن حکیم نے اس فتنہ و فساد کا یہی علاج تجویز فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{وَقٰتِلُوْھُمْ حَتّٰى لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ -} (۲:۱۹۳)
اور ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہ جائے۔
اور اسی ناگزیر ضرورت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا:
{يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ } (۸:۶۵)
اے نبی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دو۔
طریق کار:
اندریں صورت ایک مصلح کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے پیش نظر اپنے ساتھ معاشرہ میں سے ان افراد کو اپنے ساتھ ملاتا ہے جو عقائد و نظریات میں اس سے متفق ہوتے ہیں۔ پھر یہ جماعت اجتماعی شکل میں باطل قوتوں سے بھڑ جاتی ہے۔ ایسی جنگ اگر دینوی اغراض و مقاصد کے تحت لڑی جائے تو اسے قتال یا جنگ کہتے ہیں۔اور اگر اس سے مقصد دنیا سے فتنہ و فساد کو ختم کرنا ہو۔ جسے شرعی زبان میں اعلائے کلمتہ الحق یا ’’اللہ تعالیٰ کے حکم کا بول بالا کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ تو اسے جہادکا نام دیا جاتا ہے۔
جہاد اور قتال کا فرق:
مندرجہ بالا تصریحات سے درج ذیل نتائج اخذ کیے جا سکتے ہیں۔