کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 189
غزوہ میں بھی فیصلہ ان کے اپنے پسندیدہ ثالث نے کیا تھا۔ جس کی بنا پر یہ لوگ قتل ہوئے اور اسیر بنائے گئے۔ غزوۂ خیبر: خیبر یہود کی قوت کا مرکز بن چکا تھا حیی بن اخطب کا قتل اور بنو نضیر کی جلا وطنی کا صدمہ ان کو کسی صورت نہ بھولتا تھا۔ انہوں نے قبیلہ غطفان سے گٹھ جوڑ کیا قبائل عرب کو ساتھ ملایا۔ جنگی تیاریاں شروع کردیں اور بھاری جمعیت اکٹھی کرلی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ۴۰۰ صحابہ ث کے ساتھ خیبر کو نکلے۔ یہود قلعہ بند ہوگئے۔ ان کا مضبوط ترین قلعہ قموص سرہونے میں نہ آتا تھا۔ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں سر ہوا۔ یہود کا بہادر سردار مرحب بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کے ہاتھوں قتل ہوا۔ بعد میں باقی قلعے بھی سر ہوئے۔اور اس طرح بیس دن کے محاصرہ کے بعد خیبر مکمل طور پر فتح ہوا۔ اس معرکہ میں یہود کے ۹۳آدمی کام آئے جنگ کے بعد کوئی اسیر قتل نہیں کیا گیا۔ یہود کو کامل امن دیا جا چکا تھا اور ہر قسم کی مراعات سے نوازا گیا لیکن یہود پھر بھی اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ فتح کے بعد حضور چند یوم یہاں ٹھہرے۔ اس دوران سلام بن مشکم کی بیوی زینب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی۔ اس نے کھانے میں زہر ملا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لقمہ کے بعد ہاتھ کھینچ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں میں بشیر بن براء زیادہ کھا چکے تھے جو تین دن بعد شہید ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے صورت حال پوچھی تو اس نے اقبال جرم کرلیا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ ایک گہری سازش تھی جس میں سارے یہود شریک تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا؟ کہنے لگے’’اس لیے کہ اگر پیغمبر ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زہر اثر نہیں کرے گا اور اگر نہیں تو ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجات پا جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو اس سازش میں شریک تمام یہود کو قصاص کی بنا پر قتل کرسکتے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی درگزر سے کام لیا۔ البتہ بشیر بن براء کے قصاص میں زینب کو قتل کردیا گیا۔ جو یہ زہر آلود گوشت کھانے سے وفات پاگئے تھے۔ خیبر کی زمین مجاہدین میں تقسیم کردی گئی ان سے معاہدہ یہ ہوا تھا۔ کہ وہ یہاں سے نکل جائیں۔ ان کے جان ومال سے تعرض نہیں نہیں کیا جائے گا۔ لیکن بعد میں انہوں نے پھر
[1] عبداللہ بن ابی منافق یہود کا حلیف تھا۔ اسی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کی کہ انہیں اور کوئی سزا نہ دی جائے صرف جلا وطن کردیا جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کو قبول کر لیا۔