کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 18
ہے تو ساتھ ہی جہاد بالمال کا ذکر بھی آیا ہے۔
اجتماعی جہاد اور اس کی اہمیت
جہاد بالسیف اور اس کی ضرورت:
پھر کبھی ایسا بھی وقت آ جاتا ہے۔ کہ معاشرہ میں بگاڑ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ جہاد کی انفرادی کوششیں اس بگاڑ کو درست کرنے کے سلسلہ میں غیر موثر ہو کر رہ جاتی ہیں۔ سمجھنے سمجھانے کی تمام تر کوششیں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ اور بقول شاعر
وَ فِی الشَّرِّ نَجَات
حِیْنَ لَا یُنْجِیْکَ اِحْسَان‘
’’اور جب بھلائی سے کام نہ چلے تو لڑائی کے ذریعہ نجات حاصل ہوتی ہے۔ یعنی جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔‘‘
انسان فطرتاً جنگ جو او ر لڑائی پسند پیدا نہیں ہوا بلکہ وہ امن اور صلح کا خواہاں ہوتا ہے۔ اور اسلام بھی چونکہ فطری مذہب ہے لہذا اپنی اصلیت کے لحاظ سے جیسا کہ اس کے نام ہی سے ظاہر ہے …امن پسند اور صلح جو واقع ہوا ہے۔مگر جب معاشرہ میں فتنہ و فساد کا دور دورہ ہو تو اس کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کے لئے ایسے سرکش لوگوں سے ٹکر لینا ہی پڑتی ہے۔ بالفاظ دیگر مسلمان کو یہ ناگوار فریضہ اس لئے سرانجام دینا پڑتا ہے کہ دنیا میں پھیلا ہوا فساد ختم ہو کر امن و آشتی کی فضا پیدا ہوا۔ قرآن کریم اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے۔
{كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ وَھُوَ كُرْهٌ لَّكُمْ ۚ وَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَھُوْا شَـيْـــًٔـا وَّھُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ} (۲:۲۱۶)
تم پرجنگ فرض کی گئی ہے اور وہ تمہیں ناگوار ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناگوار سمجھو لیکن وہ تمہارے حق میں بہتر ہو۔
اس کی مثال یوں سمجھیے کہ انسان کو یا کسی دوسرے جاندار کو زخم لگانا اور اسے چیر پھاڑ کر رکھ دینا کسی درندہ صفت انسان کا کام ہی ہو سکتا ہے۔ لیکن یہی جراحی کا عمل جب ایک ڈاکٹر کسی ایسے پھوڑے پر کرتا ہے۔ جس کا زہر تمام جسم میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ تو ڈاکٹر کی یہی چیر پھاڑ اور فاسد گوشت کو کاٹ کر جسم سے الگ پھینک دینے کا عمل شفقت‘ رحم دلی اور ہمدردی پر محمول سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ اس کے اس عمل سے مریض کی زندگی بچ جاتی ہے۔اسلام میں ایسے ہی ناگزیر