کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 174
اب ہم یہ دیکھیں گے کہ فاتح افواج اس جوش انتقام میں کیا کچھ کرتی ہیں اور اسلام نے اس سلسلہ میں کیا احکام دئیے ہیں:۔ (۱)دشمن کی لاشوں کی بے حرمتی: دورِ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ دشمن کی لاشوں کو اپنی سواریوں کے پا ؤ ں تلے روندتے ان کا مثلہ کرتے یعنی ناک ، کان وغیرہ کاٹ دیتے۔ یُوں بھی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہ ہوتی تو ان کے کٹے ہوئے اعضاء کا ہار بنا کر گلے میں پہنتے۔ لاشوں کا کلیجہ نکال کر دانتوں میں چباتے، اس کی کھوپڑی میں شراب پیتے تھے۔ اسلام نے ایسی تمام اخلاق سوز حرکات سے منع فرمادیا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:۔ «کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یَحُثُّنَا عَلَی الصَّدَقَةِ وَیَنْهَا نَا عَنِ الْمُثْلَةِ»[1] (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ کی ترغیب دیتے اور مثلہ سے روکا کرتے تھے۔) سہیل بن عمرو خطیب قریش کے لقب سے مشہور تھا۔ صلح حدیبیہ میں قریش مکہ کی طرف سے یہی نمائندہ بن کرآیا تھا۔ یہ نہایت فصیح اللسان تھا اور اکثر اسلام اور پیغمبراسلام کے خلاف تقریریں کیا کرتا تھا۔ جنگ بدر میں گرفتار ہوکر آیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھ کر فرمایا۔ ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نچلے دو دانت اکھڑوا دیجئے تاکہ آئندہ اسلام کے خلاف تقریریں نہ کرسکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اگر میں اس کے عضو بگاڑ وں(مثلہ کروں) تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میرے عضو بگاڑ دے گا۔ (طبری ج اغزوہ بدر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح انسانی جان کو محترم قرار دیا۔ اسی طرح انسانی لاش کو بھی محترم قرار دیا۔ جنگ بدر میں مشرکین کی لاشیں کھلے میدان میں پڑی تھیں ۔ گرمی کا موسم تھا۔ ان لاشوں سے بدبو پھیل رہی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے اکثر پر مٹی ڈلوادی ۔ باقی لاشوں کو بدر کے ایک کنویں میں پھینک دیا گیا۔ جنگ خندق میں ’’اتحادی‘‘ خندق کی وجہ سے مسلمانوں پر حملہ کرنے میں بے بس ہوگئے تھے ایک دن چار شہسواروں نے گھوڑوں کو پیچھے سے دوڑا کر جست لگائی تو وہ ایک کم چوڑائی
[1] بخاری۔ کتاب النکاح ۔ باب من احب البناء قبل الغزو