کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 170
(۴)خمس: جمع شدہ مال میں سے پانچواں حصہ بیت المال میں داخل کرنے کے بعد باقی مال تقسیم ہوگا۔ ارشاد باری ہے: ﴿وَاعْلَمُوْٓا اَنَّـمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِي الْقُرْبٰي وَالْيَتٰمٰي وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ﴾ (۸۱) (اور جان رکھو جو چیز تمہیں غنیمت میں ملے تو اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اہل قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے۔) (۵) اموال فئے: ایسا مال جو بغیر لڑائی کے مسلمانوں کے ہاتھ لگ جائے وہ مال غنیمت نہیں بلکہ مال فیٔ ہے اور یہ سارے کا سارا بیت المال کی ملکیت ہوگا۔ ارشاد باری ہے: ﴿مَآ اَفَاۗءَ اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِي الْقُرْبٰى وَالْيَـتٰمٰى وَالْمَسٰكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙ﴾ (۵۹/۶) (جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے بغیر لڑائی کے دلوادیا ہے۔ وہ اللہ کے پیغمبر کے‘ (پیغمبرکے) قرابتداروں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لیے ہے۔) اب ان شرائط کے تحت جو مال اکٹھا ہوتا ہے۔ وہ حلال اور طیب ہے۔ اسی کی تقسیم ہوگی۔ یہ اموال بھی سپہ سالار کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتی۔ وہ اس میں سے صرف حصہ رسدی ہی لے سکتا ہے۔ حضرت عمر ر ضی اللہ عنہ پر کسی اعرابی نے بر سر عام یہی اعتراض کیا تھا کہ اموالِ غنیمت سے جو کپڑا حصہ رسدی ملا ہے۔ اس سے قمیص تو بن نہیں سکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسے بن گئی؟ مگر آپ نے قطعاً بُرا نہ منایا بلکہ معقول جواب سے اس کی تسلی کردی۔ ہاں امیر لشکر کو یہ اختیار ضرور ہے کہ وہ تالیف قلوب کے لیے کچھ لشکریوں کو حصہ زیادہ دیدے[1] ۔ ان چند در چند قیود کے بعد بھی مال غنیمت کے حصول کے جذبہ کی حوصلہ شکنی ہی کی گئی ہے۔ جنگ احد اور حنین میں شکست کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب یہی حصول غنیمت کا طمع
[1] بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب القلیل من الغلول