کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 17
جہاد بالقلم:
معاشرے میں بگاڑا اور بدکرداری کا سلسلہ صرف عملی طور پر واقع نہیں ہوا کرتا‘ بسا اوقات اس میں ایسے عقائد و نظریات بھی حلول کر جاتے ہیں۔ جو اسلام کے عقائد و نظریات سے یا تو مختلف ہوتے ہیں یا متصادم۔ اس صورت حال میں اہل علم اور اہل قلم حضرات کا یہ فریضہ ہوتا ہے کہ قلم کے ذریعہ غیر شرعی عقائد و نظریات کادلائل و براہین کے ذریعہ ابطال پیش کر کے اسلام کی حقانیت کو ثابت کریں۔ اور اسلامی نظریات کا دفاع کر کے انہیں اس میدان میں شکست دیں۔ جہاد کی یہ قسم بھی گوجہاد بالقرآن میں شامل ہے۔ تاہم اس کا دائرہ جہاد باللسان سے وسیع تر ہے۔ کیونکہ معاشرہ میں بے عملی‘ بدکرداری اور فساد کی عام فضا کا پیش خیمہ عموماً یہی باطل نظریات ہوا کرتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع کے لئے قرآن کریم نے کہیں تو یہ فرمایا:-
{اِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ السَّيِّئَةَ ۭ} (۲۳:۹۶)
اور بری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو۔
اور کہیں فرمایا:
{اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِىَ اَحْسَنُ ۭ } (۱۶:۱۲۵)
(اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم !) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے رب کے رستے کی طرف بلا ؤ اور بہت اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔
ان آیات سے واضح ہوتاہے کہ اندازتقریر و تحریر ہٹ دھرمی اور کج بخثی کے طور پر نہیں بلکہ مدافعانہ اور تفہیمانہ ہونا چاہئے۔ اور اپنے نظریات کو بہتر طور پر یعنی دلائل و براہین سے پیش کرنا چاہئے۔
جہاد بالمال:
یہ تو ظاہر ہے کہ جہاد بالقرآن اور بالخصوص جہاد بالقلم کے لئے بھی سرمایہ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ کیونکہ اگر اس کام کو کاروباری ذہن کے تحت سرانجام دیا جائے تو اس کادائرہ انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ اندریں صورت یہ ایک پاکیزہ کاروبار تو سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن اسے جہاد کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ جہاد اسی صورت میں ہو گا جبکہ نفع و نقصان سے بے نیاز ہو کر اعلائے کلمتہ الحق کے لئے یہ فریضہ سرانجام دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں جہاد بالنفس کا ذکرآیا
s