کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 165
باب : ۶ :اسلام کے قوانین صلح و جنگ (۲) فتح مکہ کے بعد (۱) رنگ رلیوں کی بجائے سجدۂ تشکر: دنیا کایہ پرانا دستور ہے اور آج تک موجود ہے کہ جب فوج فتح حاصل کرتی ہے تو اس خوشی میں اچھلتی ہے کودتی ہے ، ناچتی ہے ، گاتی ہے ، پیتی ہے پلاتی ہے اور خرمستیاں کرتی ہے لیکن حضور جب حجاز کا مرکزی شہر فتح کرتے ہیں تو آپ کو یہ حکم نہیں ملتا کہ شہر میں چراغاں کیا جائے ، کوئی جلوس نکالا جائے یا جلسے اور مظاہرے کیے جائیں۔ حکم ہوتا ہے تویہ کہ: ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ڼ اِنَّهٗ كَانَ تَوَّابًا Ǽ۝ۧ﴾ (۱۱۰/۳) (اب اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیجئے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیجئے بیشک وہ معاف کرنے والا ہے۔) مسلمانوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے دن اس حال میں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک پالان پر جھکا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روئیں روئیں سے بے انتہا انکسار ظاہر ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی پالان کے وسط کو چھو رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فتح کی اہمیت کا احساس جس قدر زیادہ ہوتا اتنا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خدا کے حضور جھکتے جاتے[1]۔ فتح کے بعد اس بنیادی فرق کی وجہ یہ ہے کہ کافر اور مادہ پرست فتح کو اپنے مادی وسائل کا نتیجہ سمجھتا ہے جبکہ مسلمان تمام مادی وسائل کو بروئے کار لانے کے باوجود بھی فتح کا اصل سبب اللہ کی مہربانی سمجھتا ہے۔ لہٰذا فتح کے بعد اسے شکر بھی اللہ تعالیٰ ہی کا کرنا چاہیے۔ (۳) اموال غنیمت پر حدود وقیود: فوجیں بالعموم جنگ سے پہلے اور جنگ کے دوران بھی دشمن کی املاک سے فائدہ اٹھانا
[1] بخاری۔کتاب الجہادوالسیر۔بابحَفْرُ الخندق [2] بخاری ۔ کتاب الجہاد والسیر- باب التکبیر عند الحرب