کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 163
اسی طرح جنگ خندق کے دوران مٹی ڈھو رہے تھے تو ترنم سے درج ذیل اشعار پڑھتے جاتے تھے۔ اَللّٰہُمَّ لَوْلَا اَنْتَ مَااَهْتَدَیْنَا وَلَا تَصَدَّقَ وَلَا صَلَّیْنَا وَاَنْزِلَنْ سَکَیْنَةً عَلَیْنَا وَثَبِّتِ الْاَقْدَامَ اِنْ لَّا قَیْنَا اِنَّ الْاولٰی قَدْ بَغَوْا عَلَیْنَا اِذَا اَرَادُوْ فِتْنَةً اَبَیْنَا[1] ترجمہ: (اے اللہ! اگر تو ہمیں ہدایت نہ دیتا تو ہمیں کیسے مل سکتی تھی اور ہم کیونکر نمازیں ادا کرتے اور زکوٰۃ دے سکتے تھے۔ تو ہی ہم پر تسّلی اور اطمینان نازل فرما۔ اور اگر دشمن سے مڈ بھیڑ ہو تو ہمیں ثابت قدم رکھ دشمن ہم پر بلا وجہ چڑھ آیا ہے۔ جب بھی انہوں نے فتنہ (جنگ) کا ارادہ کیا ہم انکار ہی کرتے رہے۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری مصرعہ پر زور دے کر پڑھتے اور دوبارہ سہ بارہ پڑھتے تھے۔ علاوہ ازیں مسلمانوں کے پاس رجزیہ اشعار کا نعم البدل بھی موجود ہے۔ اور وہ ہے نعرہ تکبیر اور یہ بات تجربہ میں آچکی ہے کہ مسلمانوں کے بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے سے دشمن کا دل سہم جاتا ہے ۔ جنگ بدر‘ احد‘ احزاب اور حنین میں دعوت مبارزت دینے والوں کو جن مسلمانوں نے جہنم واصل کیا وار کرنے کے ساتھ ہی بلند آواز سے اللہ اکبر کا نعرہ لگاتے تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خیبر پہنچے تو فرمایا:۔ اللّه اکبر خَرِبَتْ خَیْبَرُ[2] (۱۵) شان وشوکت کا مظاہرہ: مسلمانوں کے لئے عام حالات میں متکبر انہ چال منع ہے مگر جب دشمن کو مرعوب کرنے کے لیے میدان جنگ میں اختیار کی جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محبوب ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ اعلائے کلمۃ الحق کی حمایت میں اختیار کی جاتی ہے۔