کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 16
(نسائی۔ کتاب البیعۃ۔ باب فضل من تکلم بالحق)
کسی ظالم قوت کے سامنے سچی بات کہہ دینا افضل الجہاد ہے۔
اور یہ افضل الجہاد اس لحاظ سے ہے کہ کسی ظالم قوت کے منہ پر سچی بات کہہ کر اسے ظلم سے روکنا بڑی جرأت ایمانی کا ہی کام ہو سکتا ہے اوربسا اوقات یہ کام اپنی جان پر کھیلنے کے متراداف ہوتا ہے۔
جہاد بالقرآن :
جہاد باللسان کا طریقہ صرف یہی نہیں کہ انسان کسی کو برا کام کرتے دیکھے تو اسے روکے بلکہ یہ بھی ہے کہ شریعت کے احکام اور اوامر و نواہی سے عوام الناس کوآگاہ کرتا رہے۔ قرآن میں ہے:
{ فَذَكِّرْ بِالْقُرْاٰنِ مَنْ يَّخَافُ وَعِيْدِ 45ۧ} (۵۰:۴۵)
پس جو کوئی ہمارے (عذاب کے) وعید سے ڈرے اسے قرآن سے نصیحت کرتے رہو۔
اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ اٰیَةً-)) (بخاری کتاب بدء الخلق۔ باب ماذکر عن اسرائیل)
خواہ تم نے مجھ سے ایک آیت ہی سکھی ہو تو اسے بھی دوسروں تک پہنچا ؤ ۔
بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ انفرادی جہاد پر امن ذریعہ تبلیغ خواہ کتنے ہی بہتر طریقہ سے سرانجام دیا جائے۔ جب مخاطب کے نظریات و عقائد سے ٹکراتا ہے۔ تو وہ اسے وقار کا مسئلہ بنا کر مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اور مبلغ کے درپے آزار ہو جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکی زندگی میں ایسے ہی مخالفین سے پالا پڑا تھا۔ جنہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکاروں پر طرح طرح کے ظلم و ستم ڈھائے۔اور بالآخر انہیں اپنا گھر بارچھوڑ کر نکل جانے پر مجبور کر دیا۔ اور خود ان صحابہ کرام کی جائیدادوں پر غاصبانہ قبضہ بھی کر لیا۔ جب ایسے حالات پیدا ہو جائیں تو پھر اپنے جان و مال کی حفاظت میں جنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ گویا جب پرامن ذریعہ تبلیغ موثر ثابت نہ ہو تو متشددانہ طریقہ بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جسے عرف عام میں جہاد بالسیف اور شرعی اصطلاح میں جہاد فی سبیل اللہ کہا جاتا ہے۔