کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 156
«وُجِدَتْ امْرَأَةٌ مَقْتُوْلَةٌ فِیْ بَعْضِ مَغَازِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسلَّمَ فَنَهٰی رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلّم عَنْ قَتْلِ النِّسَاء وَالصّبیانِ»[1] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوہ میں ایک دفعہ میدان جنگ میں ایک مقتولہ عورت کو پایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں اور عورتوں کے قتل کرنے سے منع فرمادیا۔‘‘) (۳) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ میدان جنگ میں عورت کی ایک لاش پڑی دیکھی تو ناراض ہوکر فرمایا: «کَانَت هذه تُقَاتِلُ فِیْمَنْ یقاتل»[2] (کس نے قتل کیا۔ یہ تو لڑنے والوں میں شامل نہ تھی۔) اس حدیث سے صرف یہی معلوم ہوتا کہ میدانِ جنگ میں عورتوں پر ہاتھ اٹھانا ممنوع ہے۔ بلکہ اس حدیث سے مقاتل اور غیر مقاتل لوگوں کے حقوق پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ جنگ احد میں قریش مکہ کے سپہ سالار ابو سفیان کی بیوی ہندہ اور دیگر ۱۴ عورتیں بھی ساتھ آئی تھیں۔ ان کا اصل کام یہ تھا کہ وہ بھاگنے والوں کو عار دلائیں تاکہ پورالشکر جم کر لڑے اور فتح حاصل ہو۔ یہ عورتیں جنگ شروع ہونے سے پیشتر جلوس کی شکل میں دف بجاتی ہوئی سامنے آئیں۔ یہ بدر کے مقتولین کے مرثیے پڑھ پڑھ کر کفار کے جوش انتقام کو بھڑ کا رہی تھیں۔ پھر کبھی نسلی فخر ومباہات اور رجز کے اشعار پڑھنے کی خدمات بھی انجام دے رہی تھیں۔ جنگ شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار بلند کرکے فرمایا۔ ’’ کون ہے جو آج اس تلوار کا حق ادا کرے گا؟‘‘ سب صحابہ ث اس سعادت کے آرزومند تھے اور دیکھ رہے تھے کہ انتخاب نگاہ کس پر پڑتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تلوار حضرت ابو دجانہ رضی اللہ عنہ کو عطا کی۔ آپ ص پہلوانوں کی طرح بڑی نازو ادا سے اکڑتے ہوئے بڑھے انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ اللہ تعالیٰ کو یہ چال عام حالات میں پسند نہیں مگر آج بہت پسند ہے۔ صفوں کو زیر زبر کرتے کشتوں کے پشتے لگاتے چلے جارہے کہ ابو سفیان کی بیوی ہند جو عورتوں کی سالار تھی سامنے آگئی آپ کی تلوار اس کے سر تک پہنچ چکی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آگیاآپ نے فوراً تلوارروک لی اور