کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 145
ہے۔ مستامن کے کچھ حقوق وفرائض معین ہوتے ہیں۔ مثلاً جاسوسی اور بغاوت کے سوا کوئی جرم اس کی امان کو ختم نہیں کرسکتا۔ البتہ اس کے جرم کی سزا ملکی قانون کے مطابق دی جائے گی جہاں وہ رہائش پذیر ہے۔ آج کل حکومتیں جو دوسرے ملکوں کے بعض افراد کے لیے visaجاری کرتی ہیں۔ ان کی حقیقت بھی ’’امان ہی سے ملتی جلتی ہے۔ یہ ویزا سسٹم تو دو مسلم ریاستوں میں بھی چلتا ہے۔ جبکہ امان صرف مسلم اور غیر مسلم کے درمیان ہوتی ہے۔ (۶) اظہار اسلام یا کوئی علامت دیکھنے پر: اگر حریف مقابلہ پر آکر زبان سے یا کنایتاً اسلام کا اظہار کردے۔ تو جنگ سے دستبردار ہوجانا چاہیے:۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔ ﴿ يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ فَتَبَيَّنُوْا وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا ۚ ﴾(۴/۹۴) (اے ایمان والو۔ جب تم اللہ کی راہ میں (جنگ کے لیے) نکل کھڑے ہو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیکم کرے اس سے یہ نہ کہو کہ تم مسلمان نہیں ہو۔) اب دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے درج ذیل واقعات ملاحظہ فرمائیے:۔ (۱) حضرت انس ص فرماتے ہیں: «کَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ اِذَا غَزَاقَوْمًا لَمْ یَغْزُ حتّٰی یُصْبِحَ فَاِنْ سَمِعَ اَذَا نًا اَمْسَكَ وَاِنْ لَمْ یَسْمَعْ اَذًا نًا اَغَا رَ»[1] (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی قوم پر جہاد کرتے تو صبح تک حملہ نہ کرتے پھر اگر (صبح کی) اذان سُن لیتے تو حملہ کرنے سے رُک جاتے اور اگر نہ سنتے تو حملہ آور ہوجاتے۔) (۲) ابن عصام المزنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک سریہ پر روانہ کیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ: «اِذَا رَأَیْتُمْ مَسْجِدًا وَسَمِعْتُمْ مُؤَذّنًا فَلَا تَقْتُلُوْا اَحَدًا»[2] (جب تم مسجد دیکھ لو یا اذان کی آواز سُن لو۔ تو پھر کسی شخص کو قتل نہ کرو۔)