کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 118
’’بچوں کو ایسے معاملات میں کیا دخل؟‘‘ جب ہر طرف سے مایوسی ہوئی تو خود ہی مسجد نبوی میں جاکر یک طرفہ اعلان کردیا کہ ’’میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ (طبری۔ ج۱۔ باب فتح مکہ) ظاہر ہے کہ ابو سفیان صکی ایسی بے بسی اس بات کی واضح دلیل تھی کہ کفر ذہنی اور اخلاقی ہر دو پہلو ؤ ں سے اسلام کے مقابلہ میں شکست کھا چکا ہے۔ اب صرف جسمانی فتح باقی ہے۔ چنانچہ یہی واقعہ فتح مکہ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ یہ تھے صلح حدیبیہ اور اس کی توہین آمیز شرائط کے نتائج جسے اللہ تعالیٰ نے ’’شاندار فتح ‘‘ سے تعبیر فرمایا۔ (۶) حصول مقصد کے لئے کم از کم جانی ومالی نقصان ایک عظیم جرنیل کی پالیسی یہ ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے، کہ فتح کا مقصد بھی حاصل ہوجائے اور جانی یا مالی نقصان بھی کم سے کم ہونے پائے۔ خواہ یہ نقصان اپنی فوج اور علاقہ سے تعلق رکھتا ہو یا دشمن کے مقتولین اور علاقہ سے۔ اگو کوئی جرنیل کشتوں کے پشتے لگا کر کوئی ملک فتح کر بھی لیتا ہے تو ایسی فتح فوج کی بہادری کا کارنامہ تو قرار دیا جاسکتا ہے ۔ لیکن سپہ سالارکی دانشمندی اور حکمت عملی کو اس سے کم ہی تعلق ہوتا ہے۔ کیونکہ اصل مقصد علاقہ کوفتح کرنا ہوتا ہے۔ نہ کہ انسانی خون بہانا ۔ لہذا اگر ایسے نقصان کے بغیر کم از کم نقصان برداشت کرکے یہ مقصد حاصل ہوجائے تو سپہ سالار کی عظمت کی دلیل ہوتی ہے۔ اس پہلو سے اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور کارناموں پر نظر ٖڈالتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا بھر کے جرنیلوں سے ممتاز نظر آتے ہیں:۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شب خون مارنے ، غیر مقاتل (یعنی بچے، بوڑھے، عورتیں، معذور افراد درویش اور صوفی قسم کے لوگ) سے لڑنے یا ان کو قتل کرنے سے منع فرمادیا۔ فتح کے بعد قتل عام کو گناہ عظیم قرار دیا۔ اسی طرح فتح کے بعد کھیتوں کو جلانے اور غیر مقتول افراد کے محفوظ اموال لوٹنے سے منع فرمادیا۔ فتح کے بعد قتل کو گناہ عظیم قرار دیا۔ اسی طرح فتح کے بعد کھیتوں کو جلانے اور غیر مقاتل افراد کے محفوظ اموال لوٹنے سے بھی منع فرمادیا۔ گویا صرف ایسے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت ہے جو میدان جنگ میں مرنے مارنے کا ارادہ کرکے نکل آئے ہوں۔ اس طرح آپ