کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 116
گئے تو انہوں نے وہاں جا کر قید کے نگران کو تبلیغ شروع کردی جس سے وہ مسلمان ہوگیا۔ پھر اس نے بھی تبلیغ شروع کردی۔ یہ سلسلہ جاری رہا اور ہوتے ہوتے مکہ میں مسلمانوں کی تعداد ۳۰۰ تک پہنچ گئی۔ لہٰذا اس شرط سے قریش کو سخت تکلیف پہنچی۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ عتبہ بن اسید وہ پہلے مسلمان ہیں جو کفار مکہ کی ایذا رسانیوں سے تنگ آکر مدینہ میں پناہ لینے کے لیے راہ فرار اختیار کرنے میں کامیا ب ہوگئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں پہنچے تو قریش نے بھی دو آدمی ان کو واپس لانے کے لیے مدینہ بھیج دئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ بن اسید کو ابو جندل رضی اللہ عنہ کی طرح واپس کردیا۔ صبر کی تلقین کی اور یوں تسلی دی کہ ’’اللہ کوئی بہتر تدبیر پیدا کردے گا۔ یہ لوگ جب عتبہ بن اسید رضی اللہ عنہ کو حراست میں لے کر واپس ہوئے تو راستہ میں ذوالحلیفہ کے مقام پر حضرت عقبہ بن اسید رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک کو قتل کردیا۔ دوسرا فرار ہوکر واپس مدینہ پہنچا تاکہ حضور ا سے فریاد کرے۔ لیکن ساتھ ہی عتبہ بن اسید خود بھی حاضر ہوگئے۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب معاہدہ مجھے واپس کردیا۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ذمہ دار نہیں‘‘۔ یہ کہہ کر بحیرہ قلزم کے کنارے مقام عیص پر پہنچ کر اقامت اختیار کر لی۔ اور قریش کے تجارتی قافلوں کی ناکہ بندی کردی۔ اب دوسرے مظلوم مسلمان بھی مدینہ کی بجائے اس طرف کا رُخ کرنے لگے رفتہ رفتہ یہاں ایک ایسی آبادی قائم ہوگئی۔ جو قریش اور ان کے قافلوں کے لیے وبال جان بن گئی۔ ان دونوں باتوں سے تنگ آکر قریش مکہ نے خوداس شرط کو منسوخ قرار دینے کی درخواست کردی۔ اور کہا کہ آئندہ جو مسلمان مدینہ جاکر رہنا چاہیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمالیا۔ چنانچہ عیص کی نو آبادی کے سب مسلمان مدینہ چلے گئے اور اس طرح قریش کے تجارتی قافلوں کا رستہ بدستور کھل گیا[1]۔ اور اس شرط کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ مسلمان آزادانہ مکہ میں آنے جانے لگے۔ میل جول بڑھا۔ تو کفار کو مسلمانوں کے کردار اور اسلام کے سمجھنے کا صحیح ذوق پیدا ہوا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ ابتدائے ہجرت سے صلح حدیبیہ تک مسلمانوں کی تعداد تین چار ہزار سے بڑھنے نہ پائی تھی۔ لیکن اس کے صرف دو سال بعد فتح مکہ
[1] شرح مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب صلح حدیبیہ