کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 112
(۳)صلح حدیبیہ: صلح حدیبیہ کن حالات میں ہوئی اور کن شرائط پر ہوئی۔ اس کی تفصیل ہم پہلے بتا چکے ہیں۔ اس صلح نامہ کی درج ذیل شرائط کو ہم زیر بحث لائیں گے۔ (۱) اس سال مسلمان واپس چلے جائیں۔ اگلے سال عمرہ کی غرض سے آئیں۔ صرف تلوار نیام میں ساتھ لا سکتے ہیں۔ اور تین دن مکہ میں رہ کر واپس چلے جائیں۔ (۲) جو مسلمان مکہ میں ہیں اگر وہ اپنے والی کی اجازت کے بغیر مدینہ میں جا کر پناہ لینا چاہیں تو مسلمان انہیں پناہ نہیں دے سکتے۔ اور جو مسلمان مکہ میں آکر رہنا چاہیں تو قریش انہیں واپس نہیں کریں گے۔ (۳) قبائل عرب جس فریق کے ساتھ چاہیں محالفہ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ یعنی مسلمان یا کفار مکہ جس فریق کے حلیف بننا چاہیں انہیں پوری آزادی ہوگی۔ (۴) یہ صلح دس سال کے لیے برقرار رہے گی۔ بظاہر یہ شرائط مسلمانوں کے لیے بڑی توہین آمیز تھیں۔ خصوصاً جبکہ بیعت رضوان بھی ہوچکی تھی اور مسلمان مرنے مارنے پر تلے بیٹھے تھے پھر اس دوران ایک اور واقعہ پیش آگیا جس نے جلتی پر تیل کا کا م کیا۔ قریش کے اسی سفیر سہیل بن عمرو کے لڑکے ابو جندل مسلمان ہوچکے تھے اور قریش مکہ کی قید میں تھے جن پر ہر طرح کی سختیاں روا رکھی جاتی تھیں۔ وہ بیڑیوں میں جکڑے کسی نہ کسی طرح بھاگ کر مسلمانوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ مسلمانوں کو اپنے زخم دکھلا دکھلا کر رحم اور پناہ دینے کی اپیل کر رہے تھے۔ کہ انہیںقریش مکہ کی قید سے چھڑا کر اپنی حفاظت میں لے لیا جائے۔ صلح کی شرائط طے ہو چکی تھیں۔ مگر تحریر اور دستخط کرنا باقی تھے۔سہیل بن عمرو نے کہا کہ ازروئے معاہدہ ابو جندل رضی اللہ عنہ کو پناہ میں نہیں لے سکتے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد کی پاسداری کرتے ہوئے ابو جندل کو صبر کی تلقین کی۔ اور قریش کو واپس دے دیا۔ جبکہ دوسرے مسلمانوں کا جی اس قدر بھر آیا تھا کہ ابو جندل ص کو کسی قیمت پر واپس دینے کو تیار نہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازروئے معاہدہ واپس جانے کا ارادہ کرلیا۔اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ قربانی کے جانور ذبح کردئیے جائیں۔لیکن مسلمان متردد تھے۔ وہ اس انتظار میں تھے کہ شاید ابھی