کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 86
دیکھو! اندھیرے کو چیر کر ’’آفتابِ عرب‘‘طلوع ہوگیا ہے
وہ دیکھو!…… محمد … محمد …… صلی اللہ علیہ وسلم[1]
چنانچہ عام الفیل[2]9 ربیع الاول بمطابق 20اپریل 571 عیسوی سوموار کی صبح، وہ صبح سعادت تھی جب تہذیب و تمدن سے محروم بے آب و گیاہ، بے برگ و بار سرزمین مکہ نے قبیلۂ قریش کی ایک شاخ بنو ہاشم میں جناب عبداللہ بن عبدالمطلب کے یہاں بی بی آمنہ بنت وہب کی کوکھِ معلّٰی سے آفتاب رسالت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم طلوع ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان عظیم قراردیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی ’’احمد‘‘ رکھا جبکہ آپ کے دادا جناب عبدالمطلب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم تجویز کیا۔ آپ کے اسمائے مبارک محض رسمی نہیں کہ والدین نے جو چاہا، نام رکھ دیا اور احباب و اصحاب نے جس صفت سے چاہا، ملقّب کردیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسم بامسمّٰی ہیں، چنانچہ ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم اس ہستی کو کہتے ہیں جس کے تذکرے ہمیشہ خوبی و نیک گوئی کے ساتھ ہوں اور ’’احمد‘‘ کا اطلاق اس ذات پر ہوتا ہے جو سب سے زیادہ حمدِ الٰہی کے لیے نواسنج ہو۔ یہ ذاتِ اقدس کی کامل عبدیت اور کمال انسانیت کو ظاہر کرتا ہے، پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ’’احمد‘‘ اور ’’محمد‘‘ صلی اللہ علیہ وسلم ہے
[1] ’’آفتاب صحرا‘‘ منظوم ترجمہ از قاضی نذر الاسلام۔
[2] تمام ارباب تاریخ و سِیَر کاتین باتوں پر کلی اتفاق ہے۔ ایک یہ کہ ولادت کا سال ’’عام الفیل‘‘ تھا۔ دوسری یہ کہ آپ کی ولادت ماہِ مبارک ربیع الاول میں ہوئی اور تیسری بات یہ کہ ولادت باسعادت دوشنبہ (یعنی سوموار) کے دن ہوئی۔ لیکن ربیع الاول کی تاریخ میں اختلاف ہے، تاہم قسطنطنیہ کے مشہور ہیئت دان و منجّم نے کسوف و خسوف اور تقویم کا زائچہ مرتب کرکے پوری تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ ’’عام الفیل‘‘ کے ساتھ ربیع الاول میں کوئی سوموار کا دن 12ربیع الاول کو آتا ہی نہیں، لہٰذا 9ربیع الاول بروز سوموار ہی مستند تاریخ ولادت ہے۔ رحمۃ للعالمین، ص: 47۔