کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 27
عیسیٰ ابن مریم کی تعریف میں غلو اور مبالغہ آمیزی سے کام لیا (کہ اسے الٰہ اور ابن اللہ قرار دیا) میں اللہ کا بندہ ہی ہوں۔ تم میرے بارے میں یہ کہو کہ وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔‘‘[1]
لیکن اس واضح ارشاد کے باوجود ساتویں صدی ہجری میں جب تصوّف اور بدعت نے زور پکڑ لیا تھا، اہل تصوّف نے اسلاف کے منہج اور مدح کے طریقے سے یکسر خلاف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں ایسے قصیدے لکھنے شروع کر دیے جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو الوہیت کے درجے پر فائز کرنے کی کوشش کی گئی اور آپ کو صفاتِ الٰہیہ سے متصف کر دیا گیا۔
اس رسمِ بدکی ابتدا محمد بن سعید بوصیری کے ہاتھوں ہوئی جو 695ھ میں اسکندریہ میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق قصیدے لکھے جن میں سے دو بہت مشہور ہوئے۔ ایک قصیدہ ہمزیہ اور دوسرا قصیدہ میمیہ۔ ان میں سے مؤخر الذکر کو بہت شہرت حاصل ہوئی۔ بوصیری نے اس قصیدے کا نام ’’الکواکب الدریۃ في مدح خیر البریۃ‘‘ رکھا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کے اُسی جیسے فاسد العقیدہ پیروکاروں نے جھوٹ اور افتراکی بنیاد پر اس کا نام ’’قصیدہ بردہ‘‘ رکھ دیا۔ جس میں بے بنیاد اور جھوٹے خوابوں کی تشہیر کر کے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس قصیدے کے سننے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے اور انعام کے طور پر خواب ہی میں اپنی چادر عنایت فرمائی اور پھر وہ چادر بیدار ہونے کے بعد مؤلفِ قصیدہ کے ہاتھ میں تھی۔ اسی وجہ سے اس کا نام قصیدہ بردہ پڑ گیا۔ یہ باتیں بالکل باطل اور بے سند ہیں۔ بہر حال بوصیری کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و نعت میں غلو وافراط کا عنصر شامل ہوتا گیا یہاں تک کہ برصغیر کی نعتیہ شاعری میں غلو وافراط بھی آخری حدوں سے تجاوز کر گیا۔
[1] صحیح البخاري، حدیث : 3445۔