کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 262
’’عبادت‘‘ کی نیت سے کیا جائے اور قرآن وحدیث سے ثابت نہ ہو، اسے اصطلاح شرع میں ’’بدعت‘‘ کہا جائے گا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا ہٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ، فَہُوَ رَدٌّ‘ ’’جس نے دین میں کوئی ایسی چیز ایجاد کی جو اس میں نہیں ہے، وہ ناقابل قبول ہے۔‘‘[1] دوسرے لفظوں میں یہ حدیث یوں آئی ہے: ’مَنْ عَمِلَ عَمَـلًا لَّیْسَ عَلَیْہِ أَمْرُنَا، فَہُوَ رَدٌّ‘ ’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا حکم نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘[2] اس قاعدے کو سامنے رکھ کر ’’ذات کا[3] وسیلہ ‘‘ لینے پر جب نظر ڈالتے ہیں تو قرآن حکیم یا حدیثِ رسول سے اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا اور نہ ہی کسی صحابی و تابعی نے
[1] صحیح البخاري، حدیث: 2697 وصحیح مسلم، حدیث : 1718۔ [2] صحیح مسلم، حدیث: 1718۔ [3] ایک شبہ اور اس کا ازالہ: صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دورِ خلافت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کے وسیلے سے پانی طلب کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’اے اللہ! ہم تیرے نبی کے وسیلے سے آپ سے بارش طلب کرتے تھے اورآپ ہمیں بارش عطا فرماتے تھے اور اب ہم تیرے نبی کے چچا کے وسیلے سے پانی کے طالب ہیں تو آپ ہمیں بارش عطا فرمادیں۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث: 1010) لیکن حق یہ ہے کہ جس طرح صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حیاتِ نبوی میں آپ کی ذات کا نہیں بلکہ آپ کی دعاؤں کا وسیلہ لیتے تھے، اسی طرح حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت عباس کی ذات کا نہیں بلکہدعا کا وسیلہ لیا تھا۔ جیسا کہ اس حدیث کے تمام طرق کو جمع کرکے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے۔ دیکھیے فتح الباری:497/2۔ اس موضوع پر تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے علامہ البانی رحمہ اللہ کی کتاب التوسل:73-54۔