کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 25
کے ساتھ کہ اسے کوئی مستقل طریقہ نہ بنائے، نہ اپنے آپ کو اس کے لیے مخصوص کر دے۔[1]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’لَأَنْ یَّمْتَلِیئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا یَرِیہِ خَیْرٌ مِّنْ أَنْ یَّمْتَلِیَٔ شِعْرًا‘
’’کسی آدمی کا پیٹ فاسد پیپ سے بھر جائے، یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ شعر سے بھر جائے۔‘‘[2]
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یہ باب قائم کیا ہے:
’بَابُ مَایُکْرَہُ أَنْ یَّکُونَ الْغَالِبَ عَلَی الْإِنْسَانِ الشِّعْرُ حَتّٰی یَصُدَّہٗ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ الْعِلْمِ وَالْقُرْآنِ‘[3] امام بخاری رحمہ اللہ کے باب قائم کرنے سے اور دیگر علمائے کرام کی تصریحات سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شعر کا انسان پر غلبہ ہو اور یہ اسے اللہ کے ذکر، علم اور تلاوت قرآن سے روک دے تو یہ ناجائز ہے اوراگر یہ انسان پر غالب نہ ہو اور اللہ تعالیٰ کے ذکر، تلاوت قرآن اور نماز سے نہ روکے تو انسان کے پاس اچھے اور مباح اشعار کا ذخیرہ ہونا جائز ہے۔
مزید تفصیل کے لیے تفسیرالقرطبي: 136/13 اور منۃ المنعم شرح صحیح مسلم: 10/3 دیکھیے۔
نعت گوئی
جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ حسن شعر وہ ہے جس میں توحید باری تعالیٰ کا بیان ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی سنت کا دفاع ہو، دین اور اہل ایمان کی حمایت ہو تو اس طرح کے اشعار کہنا، سننا اور سنانا مستحب و پسندیدہ ہے۔ اس صنف میں سے ایک صنف نبی صلی اللہ علیہ وسلم
[1] دیکھیے شرح صحیح مسلم للنووي حدیث: 2259 کا حاشیہ والفوائد لابن القیم، ص: 198، اور فتح الباري : 539/10۔
[2] صحیح البخاري، حدیث: 6155۔
[3] صحیح البخاري، حدیث: 6154۔