کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 23
اور ان سے فرمایا کرتے تھے: ’أَجِبْ عَنْ رَّسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰهُ عليه وسلم ، اَللّٰھُمَّ أَیِّدْہُ بِرُوحِ الْقُدُسِ‘ ’’اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جواب دو، اے اللہ! روح القدس کے ذریعے سے ان کی تائید فرما۔‘‘[1] 2 ممنوع اور مکروہ اشعار اشعار کی دوسری قسم ناجائز و حرام ہے۔ یہ وہ اشعار ہیں جن میں سے شرک کی بو آتی ہو یا مقام رسالت پہ حرف آتا ہو یا جن میں کسی مومن کی ہجو و مذمت بیان کی گئی ہو، فحش گفتگو پر مشتمل ہوں، جھوٹی اور باطل مدح سرائی کی گئی ہو، کفار و فساق کی تعریف و توصیف کی گئی ہو یا اس میں زنا، بدکاری، شراب نوشی اور اخلاق رذیلہ کی طرف دعوت و ترغیب ہو۔ یہ تمام چیزیں کسی عام کلام میں ہوں تو وہ کلام بھی حرام ہے اور جب شعر کی صورت میں ہوں تو وہ شعر بطریق اولیٰ حرام ہے کیونکہ عام نثر کے مقابلے میں شعر کو زیادہ یاد رکھا جاتا ہے حتی کہ بچے بھی اسے یاد کر لیتے ہیں اور شعر ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف منتقل بھی ہو جاتا ہے تو اس طرح کا شعر کہنا، سنانا اور سننا حرام اور ناجائز ہے۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جا رہے تھے، سامنے سے ایک شاعر شعر کہتا ہوا آیا تو آپ نے فرمایا: ’خُذُوا الشَّیْطَانَ أَوْ أَمسِکُوا الشَّیْطٰنَ،لَا َٔنْ یَّمْتَلِیئَ جَوْفُ رَجُلٍ قَیْحًا خَیْرٌلَّہٗ مِنْ أَنْ یَّمْتَلِیئَ شِعْرًا‘ ’’اس شیطان کو پکڑو، اسے روکو، کسی آدمی کا پیٹ پیپ سے بھر جانا بہتر ہے کہ
[1] صحیح البخاري، حدیث: 6152۔