کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 22
آپ کی سنت کا دفاع ہو، دین اور اہل دین کی حمایت ہو، جہاد، نیکی اور مکارم اخلاق کی ترغیب ہو، گناہوں اور اخلاق رذیلہ سے تحذیر و ممانعت ہو، دنیا سے بے رغبتی کا بیان ہو اور حصول علم کی ترغیب ہو۔ اس طرح کے اشعار پسندیدہ اور قابل مدح و ستائش ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تحسین فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے: ’إِنَّ مِنَ الشِّعْرِ حِکْمَۃً‘ ’’یقینا بعض شعر پُر حکمت ہوتے ہیں۔‘‘[1] اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے سچی بات جو کسی شاعر نے کہی ہے، وہ لبید شاعر کی یہ بات ہے: ’أَلَا کُلُّ شَيْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ‘ ’’آگاہ ہو جاؤ! اللہ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔‘‘[2] اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اچھے اشعار سنا کرتے تھے،چنانچہ صحیح مسلم میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سفر میں أمیۃ بن أبي الصلت کے سو اشعار سنے تھے ۔[3] امیہ وہ جاہلی شاعر تھا جس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب تھا کہ امیہ مسلمان ہو جاتا۔[4] اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی قریظہ کے دن حسّان بن ثابت رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’اُھْجُ الْمُشرِکِینَ فَإِنَّ جِبْرِیلَ مَعَکَ‘ ’’مشرکین کی مذمت و ہجو بیان کرو، یقینا جبریل تمھارے ساتھ ہیں۔‘‘[5]
[1] صحیح البخاري، حدیث : 6145۔ [2] صحیح البخاري، حدیث: 6147۔ [3] صحیح مسلم، حدیث : 2255۔ [4] صحیح البخاري، حدیث : 6147 [5] صحیح البخاري، حدیث : 4124۔