کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 21
مقدمہ
شعر کی تعریف
لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں محض خیالی اور غیر تحقیقی مضامین بیان کیے گئے ہوں۔ اس میں کوئی بحر، وزن، ردیف اور قافیہ بھی شرط نہیں۔ فن منطق میں بھی ایسے مضامین کو ’’ادلّہ شعریہ‘‘ اور ’’قضایا شعریہ‘‘ کہتے ہیں۔ اصطلاح میں شعر کی تعریف یہ ہے: ’اَلْکَلَامُ الْمَوْزُونُ الْمُقَفّٰی قَصْدًا‘ یعنی ارادی طور پر وزن و قافیے کے سانچے میں ڈھالا جانے والا کلام۔‘‘ اصطلاحی شعرو غزل میں بھی چونکہ عموماً خیالات ہی کا غلبہ ہوتا ہے، اس لیے اسے بھی شعر ہی کہتے ہیں۔[1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شعر کے متعلق سوال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’ھُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُہٗ حَسَنٌ وَ قَبِیحُہٗ قَبِیحٌ‘
’’شعر کلام ہی ہے، اچھا شعر قابل مدح ہے اور برا شعر قابل مذمت ہے۔‘‘[2]
اس بنا پر اس کی تین قسمیں بنتی ہیں:
1 حَسن اور پسندیدہ اشعار
یہ وہ اشعار ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا بیان ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور
[1] تفسیر معارف القرآن : 553/6، والمعجم الوسیط، مادۃ شعر
[2] مسند أبي یعلٰی: 200/8، حدیث: 4760، وسلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ، حدیث : 447۔