کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 19
سخنِ دل نواز قارئینِ کرام! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہٗ اصنافِ سخن میں موضوع کے اعتبار سے اعلیٰ ترین ’’حمد‘‘ اور مابعد ’’نعت‘‘ ہے کیونکہ ثنائے ربّ العالمین کے بعد صلاۃ و سلام برذاتِ خیر الانام (سیدنا محمدٌرّسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) عظیم نیکی ہے جس کی ادبی ہیئت کا نام ہی ’’نعت‘‘ ہے۔ مگر اس کے حصول میں انتہائی حزم و احتیاط درکار ہے۔ اس لیے کہ اگر ’’ناعِت‘‘ تعریف و توصیفِ نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں تفریط و تقصیر کی مجال یا جسارت کا ارتکاب کر بیٹھے تو بحکم قرآنی ’’حبطِ اعمال‘‘ کا سزا وار ہو گا اور نیکیوں سے جھولی بھرنے کے بجائے تہی دامن ہو جائے گا۔ علی الرّغم اگر افراط اور غُلوّ کا شکار ہو جائے تو ناراضی ٔ رب کا مُورِد ٹھہرے گا، لہٰذا بقول پروفیسر اقبال جاوید ’’نعت کہیے! مگر احتیاط کے ساتھ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ اس نے مجھے مدحتِ رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی نزاکت کے اسی پہلو پہ قلم اُٹھانے کی توفیق بخشی ہے۔ بہ ایں سعادت میں نے اپنے مَبْلغ علم کے مطابق مقدور بھر کوشش کی ہے کہ نہ صرف ’’نعت‘‘ کے خدوخال اور حدود و قیود کی نشان دہی کر دوں بلکہ اصنافِ ’’حمد و نعت‘‘ کے مابین جو د بیز مگر نازک فرق اور بین حدِّ فاصل ہے اس کو بھی واضح کر دوں تاکہ نعت گوئی اور نعت خوانی کی فضیلت حاصل کرنے والے سعادت مند حضرات صفاتِ اِلٰہ العالمین کو مناقب و شمائلِ رحمۃللعالمین( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے خلط