کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 16
کی تعلیمات سے اچھی طرح باخبر ہو۔ خاص طور پر اُس نے سیرتِ نبوی کا بڑی توجہ سے بھر پور مطالعہ کیا ہو۔ بصورت دیگر وہ نعت گوئی کے آداب کما حقہ پورے نہیں کرسکے گا۔
نعت گوئی کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہر نعت گو شاعر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بیان کرتے ہوئے بہت محتاط رہے۔ غلو سے کام نہ لے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امام الانبیاء ہیں۔ خاتم النبیین ہیں۔ عالم انسانیت کی سب سے بڑی شخصیت ہیں مگر اتنے اعلیٰ اور ارفع مرتبے پر فائز ہونے کے ساتھ ساتھ وہ عبدہٗ بھی ہیں۔ شاعر ان کی توصیف و ثنا میں اس منزلت سے ذرہ بھر بھی آگے بڑھے گا تو جادۂ اعتدال سے گِر جائے گا اور مقامِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو درجہ الوہیت سے جا ملائے گا۔ اسی طرح عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تقاضے پورے طور پر ملحوظ رکھے بغیر بے احتیاطی سے ایک لفظ بھی لکھ دے گا تو متاعِ ایمان گنوا بیٹھے گا۔ پس نعت گوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان ہونی چاہیے۔ نعت کے مضامین میں رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی ہمہ جہت خوبیاں بیان کرنی چاہئیں۔ یہ بتانا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عظمتِ آدم کی سب سے اونچی مسند پرجلوہ آرا ہونے کے باوجود کس قدر عاجزی، فروتنی اور انکسار سے کام لیتے تھے اور اللہ رب العزت کے حضور کس کثرت سے نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کی معیشت کتنی سادہ تھی۔ معاشرت کتنی پاکیزہ اور بے تکلف تھی۔ آپ خلقِ خدا پر کتنے شفیق تھے۔ کسی بچے کے رونے کی آواز بھی سن لیتے تو بے قرار ہوجاتے اور نماز کو مختصر کردیتے تھے۔ غریب بیواؤں کے گھروں پر خود تشریف لے جاتے تھے، ان کی نصرت اور خدمت فرماتے تھے۔ یتیموں کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو پونچھتے تھے۔ غلاموں کی غمخواری کرتے تھے، ان کے کام میں بہ نفسِ نفیس ہاتھ بٹا کر ان کی مشقت ہلکی کردیتے تھے۔ آپ کو ہر انسان کو کفر اور شرک سے بچانے اور جہنم کے شعلوں سے محفوظ رکھنے کی کیسی تڑپ اور لگن تھی۔ اسی تڑپ اور کُڑھن کے زیر اثر آپ دین ِحنیف کی تبلیغ کرتے تھے۔ اور مکہ کے