کتاب: نعت گوئی اور اس کے آداب - صفحہ 151
’’کیا اس نے اتنے سارے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا ڈالا، یہ تو بڑی عجیب بات ہے!‘‘ [1]
یعنی کیا اس نبی نے اتنی ساری ہستیوں کے بجائے صرف ایک ہستی ہی کو مقام و مرتبۂ الوہیت دے دیا ہے کہ صرف اسی ایک اِلٰہ کی بندگی کی جائے۔
چنانچہ توحیدِالوہیت ہی اہل مکہ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جھگڑے کا باعث تھی۔وگرنہ اس اعتبار سے ان کا عقیدہ موجودہ دور کے سادہ لوح مسلمانوں سے بہتر تھا کہ وہ کم از کم روزی کا دینے والا تو ایک اللہ ہی کو سمجھتے تھے جبکہ موجودہ دور کے نعت گو شعراء کو دیکھیے جو پہلے تو کہتے ہیں:
نہ مال اولاد دا صدقہ، نہ کاروبار دا صدقہ
اسیں تے کھانیں آں یارو! خدا دے یار دا صدقہ
لیکن بعد ازاں مزید مبالغہ کرتے ہیں تو یوں گویا ہوتے ہیں:
رب ہے ’’معطی‘‘ یہ ہیں قاسم[2]
رزق اس کا ہے، کھلاتے یہ ہیں
(احمد رضا خاں)
[1] صٓ 5:38۔
[2] یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ایک ٹکڑا ’أَنَا قَاسِمٌ وَّاللّٰہُ مُعْطِي‘ سے ماخوذ ہے۔ لیکن علمی خیانت کی انتہا دیکھیے کہ جو حدیث تقسیمِ علم پہ مبنی تھی اسے تقسیمِ رزق پہ چسپاں کردیا۔ مکمل متن ملاحظہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ جس سے بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اُسے دین کی سمجھ عطا فرمادیتا ہے۔ اور بے شک میں تو تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، حدیث : 3116، وصحیح مسلم، حدیث : 1037) نیز تاریخ اسلام اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم شاہد ہیں کہ شعب ابی طالب میں کفار مکہ کے سماجی بائیکاٹ کے دوران میں ہاشمی(